اپنوں کی لاشیں کھانے والی بلائیں/نجم ولی خان

میں نے اپنی صحافتی زندگی میں جو کچھ دیکھا اس میں سب سے خوفناک اپنے پیاروں ، ساتھیوں اور وفاداروں کی لاشیں کھانے والی بلائیں ہیں جوان کے گوشت اورلہو سے اپنی سیاست کا پیٹ بھرتی ہیں، سیاسی بھوک اور پیاس مٹاتی ہیں اور یہ ظالمانہ کھیل کئی برسوں سے انتہائی بے شرمی سے جاری ہے، علی بلال المعروف ظلِ شاہ کی افسوسناک اور المناک موت اسی کھیل کی تازہ ترین قسط ہے۔ میں نے یہ کھیل انتہائی شدت کے ساتھ آج سے آٹھ برس آٹھ ماہ اور تئیس دن پہلے 17جون 2014 کو انتہائی بے رحمی کے ساتھ کھیلے جاتے ہوئے دیکھا تھا جب ماڈل ٹاؤن میں شہید ہونے والے دس سے زائد پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کی لاشوں کو سیاسی مخالفین کے گلے کی رسی بنانے کی سازش کی گئی تھی۔ میں نے تب بھی لکھا تھا اور آج بھی قائل ہوں کہ اس کی حقیقت کبھی نہ کبھی ضرور سامنے آئے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم قانون اور اخلاقیات سے ماورا ایک بے رحم اور مفاد پرست معاشرے کے فرد ہیں۔ ہم ایسی ایف آئی آر کرواتے ہیں جن میں مظلوم، ظالم بن جاتے ہیں یعنی ایک گروہ کا بندہ مرا ، وہ جیسے بھی ہوامگر مخالفین کے چاچے بابے تک اندر کروا دئیے تاکہ سبق سکھایا جا سکے ۔ یہ کہنا ظالمانہ اور بے رحمانہ سہی کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو یا ظلِ  شاہ کی موت اس میں پاکستان عوامی تحریک یا پاکستان تحریک انصاف خود ملوث ہیں مگر یہ ضرور ہے کہ کچھ کُھرے ان کی طرف ضرور جاتے ہیں جو اس واردات پرسب سے زیادہ شور مچا رہے ہیں۔ ظلِ  شاہ کی موت صرف ایک واقعہ نہیں ہے۔

مجھے یاد ہے کہ 2015  میں سردار ایاز صادق اور علیم خان کے درمیان ایک ضمنی الیکشن کی مہم میں گارڈن ٹاؤن کے ایک پراپرٹی ڈیلرمحمد اکبر کی لاش لاہور کی نہر سے برآمد ہوئی۔ پی ٹی آئی نے فورا ً الزام لگا دیا کہ اسے سردارا یاز صادق نے قتل کروا کے لاش نہر میں پھینکوا دی ہے حالانکہ سردارا یاز صادق کو جاننے والوں کو بخوبی علم ہے کہ وہ کتنے  نرم خو  ہیں۔ الیکشن میں اس کی خوب چرچا کی گئی، محمود الرشید سمیت کئی رہنماؤں نے اس کا جنازہ بھی پڑھا مگر اس کے باوجود پی ٹی آئی ہار گئی اور بعد میں سی آئی اے نے قتل میں ملوث تین افراد کو گرفتار کر لیا۔ میں مرنے والے  کی برائی یا بدنامی نہیں چاہتا مگر صرف اتنا لکھوں گا کہ معاملہ کچھ تعلقات اور شاید دوسری شادی کا تھا۔ ابھی کچھ ہی ماہ پہلے ( 25 مئی کو) پی ٹی آئی نے لانگ مارچ کیا اوراسی مارچ میں راوی کے دونوں پلوں کے درمیان خلا میں گر کے پی ٹی آئی کا ایک کونسلرفیصل عباس جاں بحق ہو گیا۔ پی ٹی آئی نے اس کا کیس بھی یہ بنایا کہ پولیس نے پنجاب حکومت کے اشارے پر اسے اٹھا کے نیچے پھینکا۔ میں پنجاب پولیس کے بہت سارے طور طریقوں پر تنقید کرتا ہوں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ پنجاب یا لاہور کی پولیس قاتلوں کا ایک گروہ ہے جو حکومت کے مخالفین کو مارتا پھرتا ہے۔ اس امر کا فیصلہ واقعاتی شہادتیں کرتی ہیں کہ موت کی وجہ کیا تھی۔ میں نہیں سمجھتا کہ سردار ایاز صادق کو کسی بھی طور پر اپنے کسی سیاسی مخالف کونسلر کو قتل کروانے کی ضرورت تھی یا اس وقت کے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کوحکم دینے کی ضرورت تھی کہ فلاں کونسلر فلاں وقت پر راوی پل پر ہوگا اسے وہاں سے نیچے گرا کے اسے جان سے مار دینا۔کیا اس سے زیادہ فضول بات کوئی ہو سکتی ہے؟

اب آپ ظلِ  شاہ کے جاں بحق ہونے پر آجائیں۔ میں اس روز زمان پارک میں موجود تھا جب پولیس نے چاروں طرف سے اس علاقے کو بند کیا ہوا تھا۔ یہ فیصلہ حکومت کا تھا کہ لاہور میں عورت مارچ بھی ہے اور پی ایس ایل بھی اوراس موقعے پر ایسی سیاسی سرگرمی مناسب نہیں جس سے کوئی بڑا حادثہ ہوسکتا ہے لہذا دفعہ 144 لگا دی جائے۔ ہم سب نے دیکھا کہ وہاں ہر دوسرے کارکن کے پاس بڑے بڑے ڈنڈے تھے جو بچوں کو بھی تھمائے گئے تھے۔ میں نے پوچھا کہ ان ڈنڈوں کا کیا مقصد ہے تو وہ برہم ہو گئے اور کچھ پل بھی پڑے۔ ظاہری صورت یہ ہے کہ عمران خان بہرصورت گرفتاری سے بچنا چاہتے ہیں جس کی نواز لیگ کے رہنما بہت ہی توہین آمیز وضاحت کرتے ہیں کہ اگر عمران خان گرفتار ہو گئے اور ان کا بلڈ سیمپل لے لیا گیا تو پھر بہت سارے انکشافات ہوجائیں گے لہذا وہ کسی طور پر کسی سرکاری ہسپتال کے قریب بھی نہیں جانا چاہتے۔ اب اگر پولیس آپ کو ایک کارروائی سے روکے اور آپ ڈنڈے لے کرمزاحمت کریں تواس سے تصادم اور فساد ہی ہوگا۔ میں نے آج تک عمران خان سے زیادہ بے درد اور بے رحم سیاسی رہنما نہیں دیکھا جو اپنے کارکنوں کو پولیس سمیت دیگر اداروں کے سامنے پھینک دیتا ہے اور خود قلعہ بند رہتا ہے۔ یاد کیجیے، پی ٹی آئی نے اپنے دھرنوں میں  بھی لاشیں حاصل کرنے کی پوری منصوبہ بندی کی۔ کارکنوں کو ریاستی اداروں کے مقابلے میں کھڑا کیا اور انہیں یقین ہو گیا کہ نواز شریف حکومت کے خلاف انہیں لاشیں مل گئی ہیں تو ان کے پروپیگنڈہ چینلوں نے ہلاکتوں کی جعلی خبریں چلا کے پورے ملک میں آگ لگانے کی کوشش کی مگر جب کوئی لاش نہ ملی تو پروپیگنڈہ کیا گیا کہ لاشوں کو کیمیکل ڈال کے جلا دیا گیا ہے۔ کیسے بھونڈے رہنما ہیں اور کیسے احمق ان پر یقین کرنے والے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

واپس ظلِ شاہ کی ہلاکت پر آتے ہیں۔ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی اور آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے اس ہلاکت پر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر کے رکھ دیا ہے۔ ظلِ شاہ کو ہسپتال لانے والی گاڑی اوراس کامالک، ڈرائیور سب پکڑ لئے ہیں، شومئی قسمت، یہ سب پی ٹی آئی والے ہی نکلے ہیں۔ سی سی ٹی وی فوٹیجز اور ڈاکٹر یاسمین راشد سے فون کال تک سب میڈیا کے سامنے رکھ دی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب ان سے ظلِ شاہ مرا تو انہوں نے اس کے مردہ جسم سے اپنی سیاسی ضیافت کا فیصلہ کیا حالانکہ وہ معصوم تو ان کا اپنا کارکن تھا، ان کا ساتھی تھا، ان کے نعرے لگاتا تھا اور یہ سب اس کا لہو کیسے پی سکتے ،اس کی بوٹیاں کیسے کھاسکتے تھے مگر پھر مجھے خیال آیا کہ یہ مزا اور چسکا ان کے لئے نیا نہیں،2014  سے اپنوں کا خون ان کے منہ کو لگا ہوا ہے۔ میں نے پنجاب کے وزیر صحت ڈاکٹر جاوید اکرم سے پوچھا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ظلِ  شاہ کے جسم پر زخموں کو اس پر تشدد کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے تو انہوں نے واضح کیا کہ زخم تشدد سے آئے یاحادثے سے، اس کا فیصلہ واقعاتی شہادتیں اور تفتیش کرتی ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ صرف یہ بتاتی ہے کہ کون سے زخم تھے اور ان سے  کیا اثرات مرتب ہوئے۔ اسی طرح اپنے پیاروں کی لاشیں کھانے والی بلاؤں کے گروہ نے ظلے شاہ کے والد لیاقت علی کے بیان کو محص اس لئے مسترد کردیا کہ وہ چینل ٹوئینٹی فور اور جیو نیوز پر آن ائیر ہو۔وہ سب اس پر خدا کے خوف سے بات کرنے والے ظلِ  شاہ کے والد کی بجائے فواد چوہدری کے الزامات کو سچ مان رہے ہیں حالانکہ سینئر پولیٹیکل رپورٹر کاشف سلیمان بتا رہے تھے کہ جب تک ظلِ  شاہ زمان پارک میں موجود رہا اسے ٹکے کی عزت نہ دی گئی،اس کے سلام تک کا جواب نہیں دیا جاتا تھا۔ میں نے ویڈیو میں تحریک انصاف کے غنڈوں کو ظلِ  شاہ کو بے رحمانہ طور پر مارتے ہوئے بھی دیکھا۔ عمران خان نے خود تسلیم کیا کہ وہ اس کے گھر کے باہر کب سے موجود تھا مگر اس نے اسے دیکھا   تک نہیں تھا، مگر اب صورتحال بدل چکی ہے۔ اپنے پیاروں اور وفاداروں کی لاشیں کھانے والوں کو ایک لاش اور مل چکی ہے۔ان کی رالیں ٹپک رہی ہیں۔ وہ اس کے گوشت اور لہو سے اپنا سیاسی پیٹ بھریں گے اوربڑی بڑی ڈکاریں ماریں گے

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply