• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • خلوصِ نیت کا سوال اضافی اور غیر ضروری ہے۔۔۔اسد مفتی

خلوصِ نیت کا سوال اضافی اور غیر ضروری ہے۔۔۔اسد مفتی

جنگ31مئی کی خبر کے مطابق برطانیہ میں جبری شادی کروانے کا ایک اور مقدمہ سامنےآیا ہے، 18جون کو سنائی جانے والی سزا کے مجرم والدین اپنی19سالہ بیٹی کی شادی اس کے کزن سے کرنا چاہتے تھے جو اسے ہرگز منظور نہیں تھا لڑکی کے انکار پر اسے تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا جس پر لیڈز کراؤن کورٹ نے والدین کو مجرم قرار دے دیا۔ یہ شادی ان دنوں برطانیہ کے سیاسی وسماجی حلقوں میں زیر بحث ہے، جبکہ ہر سال برطانیہ میں300سے ایک ہزار تک جبری شادیوں کے کیس سامنے آتے ہیں۔

برطانیہ، اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کی ایشیائی کمیونٹی میں جبری اور بے جوڑ شادیوں کا مسئلہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے ایک اندازے کے مطابق صرف اسکاٹ لینڈ میں ہربرس تقریباً تین سو ایشیائی (جن میں پاکستانیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے) شادیاں ہوتی ہیں جن میں پچاس فیصد شادیاں جبری یا بے جوڑ شادیوں کے زمرے میں آتی ہیں۔ اس قسم کی صورت حال سے جوڑے کے علاوہ ان کے خاندان بلکہ نسلی تعلقات بھی متاثر ہوتے ہیں۔

کونسل کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ88فیصد شادیوں میں ایک فریق کا تعلق غیر ملک سے تھا 79فیصد شادیاں بے جوڑ اور مفادات پر مبنی تھیں جبکہ21فیصد جبری تھیں۔ شادی کرنے والی خواتین کا تناسب62فیصد اور مردوں کا تناسب 38 فیصد تھا، 35فیصد کو ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ جبری شادی پر مجبور کی جانے والی خواتین کی عمر16سے20سال کے درمیان تھی۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ، اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ میں مرضی اور منشا کے خلاف زبردستی کی شادیوں کے نتیجے میں بعض لڑکیاں خودکشی تک کر بیٹھتی ہیں اور یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ خودکشی کی شرح ایشیائی لڑکیوں میں دیگر خواتین کی نسبت دو سے تین گنا زیادہ ہے۔

ادھر جرمن حکام نے مسلم تارکین وطن میں جبری شادیاں روکنے کیلئے نیا پلان بنالیا ہے اس حوالے سے جرمن حکام نے اپنی خصوصی مہم بھی تیز کردی ہے، ایک سروے کے مطابق جرمنی میں بعض مسلمان تارکین وطن اپنی بچیوں اور عورتوں کو تشدد کا نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے اور انکی زبردستی اور جبری شادی کرنے کا رواج بھی زور پکڑتا جارہا ہے جس کے سدباب کیلئے حکومت نے ان کو ریلیف دینے اور روک تھام کیلئے آن لائن سروس شروع کردی ہے۔

فیملی افیئرز کی جرمن وزیر نے برلن میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ترکی، پاکستانی، لبنانی، شامی، ایرانی اور عراقی تارکین وطن ہر سال 900سے ہزار تک جبری شادیاں کرتے ہیں اور کچھ لوگ جبری طور پر اپنی بچیوں کو وطن واپس بھیج دیتے ہیں۔

گزشتہ ماہ شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کو برطانیہ میں سکونت اختیار کرنے کیلئے بھی جبری شادی، بوگس شادی اور سہولت کی شادی کا سہارا لینا پڑتا ہے اس حوالے سے صرف برطانیہ میں ایک برس کے اندر چار سوفیصد اضافہ ہوا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سال2712بوگس شادیوں میں سے51فیصد جبری شادیاں تھیں۔ 2015میں یہ تعداد756 اور2016میں 413تھی حکومت نے ایک قانون وضع کیا ہے جسکی رو سے مستقبل میں یورپ سے باہر سے آنے والے کسی بھی فرد کو یہاں شادی کیلئے اسپیشل سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ہوگا، رجسٹرار، ہوم آفس کی انٹری کلیرنس یا دستاویز کے بغیر شادی سے انکار کرسکیں گے۔

پچھلے برس تحقیقاتی ٹیم نے60 شادیوں کو غیر قانونی قرار دے کر110افراد کو حراست میں لیا تھا۔ ان تحقیقاتی ٹیم اور امیگریشن حکام نے بوگس اور جبری شادیوں کے خلاف کارروائی شروع کردی ہے اور عین اس روز جب ہوم سیکرٹری نے رجسٹرار  کو اختیار دیا کہ وہ جعلی شادی رجسٹرکرنے سے انکار کرسکتے ہیں مختلف مقامات پر چھاپے مارکر دس افراد کو حراست میں لے لیا گیاتھا۔

حکومت نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ سے غیر ملکیوں کی شادی ایک اسپیشل رجسٹرآفس کیا کرے گا جہاں شادی سے قبل جوڑے سے امیگریشن کے حوالے سے انٹرویو لیاجائے گا ۔ایک رپورٹ کے مطابق لندن میں گزشتہ سال21فیصد شادیاں بوگس اور جعلی تھیں جو منظم گروہ بیرون ملک سے مردوں کوبلا کر کرواتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جعلی شادیاں ملک میں عام ہورہی ہیں اور دس ہزار پونڈ فی کس تک کی رقم وصول کی جاتی ہے۔

میرج رجسٹراروں نے   ہوم سیکرٹری سے مزید اختیارات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ وہ کسی بھی (مشتبہ شادی) کو روک سکیں رجسٹراروں کی سوسائٹی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لندن میں ہر پانچ میں ایک شادی منظم گروہ غیر قانونی تارکین وطن کے برطانیہ میں قیام کے لئے بھاری رقم کے عوض ترتیب دیتے ہیں بعض جوڑے یہ بات چھپانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو جانتے تک نہیں اور رجسٹرار اس صورت حال سے سخت اضطراب کا شکار ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تاہم برطانوی حکومت نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ ہم سرمایہ کاروں، ورکروں، حقیقی طلبا اور دیگر ممالک سے دوستوں کی آمد روک نہیں سکتے اور نہ ہی ان کیلئے اس ملک کے دروازے بند کرسکتے ہیں لیکن ہم ایسے لوگوں جو برطانیہ میں داخل ہوکر بوگس شادی یا سہولت کی شادی کے ذریعے مستقل قیام کرنا چاہتے ہیں، کو روکنے کیلئے اپنے امیگریشن اورمیرج رجسٹر ار آفس کو مزید اختیار دینے کی پالیسی اپنا رہے ہیں۔

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply