میرے حسین علیہ السلام۔۔۔مبشر علی زیدی

مجھے سوال کرنے کی عادت بچپن سے تھی۔ کسی کو سوال پسند آئے یا نہ آئے، جواب ملے یا نہ ملے، سوال کرنا ضروری تھا۔ امی مجھے منہ پھٹ کہتی تھیں کیونکہ مہمانوں کے سامنے میرے سوال کبھی کبھی پریشان کن ہوجاتے تھے۔ لیکن بابا سوال کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔
بہت بچپن کی بات ہے کہ میں نے محرم کے جلوس میں زنجیروں کا ماتم دیکھا۔ ہم اس وقت خانیوال میں رہتے تھے۔ سنگلاں والا چوک پر زنجیر لگتی تھی۔ میں نے پہلی بار وہ جھنکار سنی۔ میرے دوست کرار حیدر نے سینے پر بلیڈ مار کے خون نکالا۔ میں نے گھر آکر ضد کی کہ میں بھی خون کا ماتم کروں گا۔
امی نے مجھے بہلانے کی کوشش کی۔ نانی اماں نے دوسرے طریقے سے سمجھانا چاہا۔ انھوں نے اختر بھائی کے بارے میں بتایا۔ وہ ان کے کزن محمود حسن کے بیٹے تھے۔ اماں نے بتایا کہ اختر بھائی محرم میں زنجیروں کا ماتم کرتےتھے۔
خون کا ماتم کرنے والوں کے درجے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ محض رسم نبھاتے ہیں۔ کچھ لوگ منت پوری ہونے پر ماتم کرتے ہیں۔ کچھ لوگ دیوانہ وار زنجیر چلاتے ہیں۔ دیوانوں کی پیٹھ پر بڑے بڑے زخم آجاتے ہیں۔ بوٹیاں اڑ جاتی ہیں۔ میں نے بعد میں ایسوں کے پچاس پچاس ٹانکے لگتے دیکھے۔
اختر بھائی مشہور ماتمی تھے۔ ان کی والدہ ان کا خون دیکھ کر گھبرا جاتی تھیں۔ انھوں نے بیٹے کو نماز کی طرف راغب گیا۔ انھیں بتایا کہ حضرت علی اور امام حسین کو نماز پڑھتے ہوئے شہید کیا گیا تھا۔ نماز کی اتنی اہمیت ہے۔ اختر بھائی کی سمجھ میں بات آگئی۔ وہ نماز پڑھنے لگے۔ ایسے کہ پنج وقتہ نمازی ہوگئے۔
محرم آیا تو اختر بھائی نے زنجیر کو دھار لگوائی۔ ان کی والدہ نے کہا کہ کیا خون کا ماتم کرنے کا ارادہ ہے؟ خون ناپاک ہوتا ہے۔ شرعی مسئلہ ہے کہ جسم سے خون رس رہا ہو تو نماز نہیں ہوسکتی۔ اختر بھائی الجھن میں پڑگئے۔ نماز پڑھیں یا ماتم کریں؟ آخر انھوں نے نماز کے حق میں فیصلہ کیا۔ زنجیر کا ماتم کرنا چھوڑ دیا۔
مجھے یہ سب نانی اماں نے بتایا۔ وہ چپکی ہوئیں تو میں نے، یعنی پانچ چھ سال کے بچے نے سوال کیا، کربلا میں عاشور کے دن عصر کے وقت امام حسین نے خونم خون ہونے کے باوجود نماز کیسے پڑھی؟
اماں ہکابکا رہ گئیں۔ امی سناٹے میں آگئیں۔ مجھے یاد ہے کہ بڑے ماموں بھی موجود تھے۔ انھوں نے یہ کہہ کر بات سنبھالی کہ امام کا خون پاک ہوتا ہے۔ امام حسین کا خون تو ایسا پاک تھا کہ جہاں گرا، وہ مٹی خاک شفا بن گئی۔ اب سجدہ اس مٹی پر ہوتا ہے۔ بڑے نے بچے کو جواب دے دیا لیکن سمجھ گئے کہ پہلا سوال ایسا خطرناک ہے تو بعد کے سوالات کیسے ہوں گے۔
کراچی آنے کے بعد میری اختر بھائی سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ بہت ہنس مکھ آدمی تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ان کے ماتھے پر سجدے کا نشان پڑچکا تھا۔ بدقسمتی سے ان کا کم عمری میں انتقال ہوگیا۔ ان کی والدہ نے اکلوتے بیٹے کی موت کا غم سہا۔ اس کے بعد میں نے اختر بھائی کے بیٹے کو زنجیروں کا زوردار ماتم کرتے دیکھا۔
بیشتر لوگوں کے لیے امام حسین ایک مذہبی اور روحانی شخصیت ہیں۔ صاف بات ہے کہ کوئی غیر مذہبی شخص کسی مذہبی شخصیت کو کیوں مانے؟ مذہبی شخصیت تمام مذاہب کے بجائے کسی ایک مذہب اور پھر کسی ایک فرقے تک محدود رہ جاتی ہے۔ علمائے تشیع امام حسین کو جس طرح مانتے ہیں، اگر ویسا مانا جائے تو پھر کوئی غیر شیعہ انھیں نہیں مانے گا۔
میرا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے اور میں براہ راست امام حسین کی اولاد میں سے ہوں۔ چنانچہ میرے پاس ان کی مدح میں کہنے کو بہت کچھ ہونا چاہیے۔ لیکن میں غیر مذہبی شخص ہوں۔ اس کے باوجود میں نے اپنے بیٹے کا نام حسین رکھا ہے۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ مذاہب اور مذہبی شخصیات کا احترام اپنی جگہ لیکن ہم دنیا کو امام حسین کے بارے میں کیا بتائیں؟ کیا کوئی امریکی یہ مان لے گا کہ امام حسین نے ایک فرشتے کا علاج کیا تھا؟ کیا کوئی روسی یہ تسلیم کرے گا کہ امام حسین نے ایک بے اولاد کو سات بیٹے عطا کیے تھے؟ کیا کوئی چینی اس پر ایمان لائے گا کہ جنات نے امام حسین کے ساتھ کربلا میں لڑنے کی اجازت طلب کی تھی؟
ہمیں سقراط سے اس لیے محبت ہے کہ وہ سوال کرنا سکھاتا تھا۔ ہم گلیلیو کے اس لیے طرف دار ہیں کہ وہ مذہبی کتابوں میں درج قصے کہانیوں پر ایمان لانے کے بجائے تحقیق میں دلچسپی رکھتا تھا۔ ہمیں مارٹن لوتھر کنگ جونئیر اور نیلسن منڈیلا اس لیے پسند ہیں کہ وہ غلامی کے خلاف تھے اور مساوات کا مطالبہ کرتے تھے۔ ہمیں ملالہ پر اس لیے فخر ہے کہ اس نے جبر کے دنوں میں دہشت گردوں کے خلاف آواز بلند کی تھی۔
ہم امام حسین کے اس لیے عاشق ہیں کہ انھوں نے ایک ڈکٹیٹر کو ماننے سے انکار کیا تھا۔ ہم بھی کسی جابر کو نہیں مانتے۔ ہم بھی ڈکٹیٹر کی بیعت نہیں کرتے۔
ڈھائی ہزار سال کے عرصے میں سوال کرنے کی روایت پڑجاتی تو آج سقراط کسی کو یاد نہ ہوتا۔ مذہبی قصے کہانیوں کو سب مسترد کردیتے تو آج گلیلیو کا نام تاریخ کی کتابوں میں کھو جاتا۔ مساوات رائج ہوجاتی تو مارٹن لوتھر کنگ جونئیر اور منڈیلا اپنی زندگی میں فراموش کردیے جاتے۔ دہشت گردی کے خلاف پوری قوم کھڑی ہوجاتی تو ملالہ کو نوبیل انعام کون دیتا؟
دنیا سے جبر اور ڈکٹیٹر شپ ختم ہوجاتی تو امام حسین کو یاد رکھنے کی ضرورت نہ رہتی۔ جبر کا ماحول بدستور قائم ہے۔ ڈکٹیٹر شپ آج بھی ہے۔ ظلم اب بھی جاری ہے۔
ظلم ہے تو احتجاج بھی جاری رہے گا۔ امام حسین کی یاد منائی جاتی رہے گی۔ مذہب پرستوں کے ساتھ غیر مذہبی حریت پسند کربلا میں حاضری دیتے رہیں گے۔ لوگ اپنے بیٹوں کے نام حسین رکھتے رہیں گے۔

Facebook Comments

مبشر علی زیدی
سنجیدہ چہرے اور شرارتی آنکھوں والے مبشر زیدی سو لفظوں میں کتاب کا علم سمو دینے کا ہنر جانتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply