اور میں نم دیدہ نم دیدہ (5)-ابوبکر قدوسی

ہوٹل کے کمرے سے نکلے تو باہر شٹل تیار کھڑی تھی ، شٹل سے مراد وہ بس سروس ہے کہ جو ہوٹل سے زائرین کو لے کر حرم جاتی ہے ۔ ووکو ہوٹل کی یہ سروس بلا شبہ شان دار تھی ،خاص طور پر نمازوں کے اوقات میں ہر چند منٹ بعد بس تیار ملتی البتہ دوسرے اوقات میں سواریوں کے جمع ہونے کا انتظار ضرور رہتا ۔ ہم بیٹھے تو مغرب کی نماز میں کچھ ہی وقت رہتا تھا سو کچھ ہی لمحوں میں گاڑی چل دی ۔

شدت ِطلب سے جان و بدن سب جل رہا تھا ۔ مجھے ساون کی تلاش نہ تھی کہ جو آئے اور آ کر اس ہجر کی آگ کو ٹھنڈا کرے کہ جانتا تھا یہ تو آگ ہی ساون کی لگائی ہوئی تھی ۔ برسوں یوں گزرے کہ ساون آنکھوں سے اترتا ، برستا اور تن من جلا جاتا ۔ یہ تو قرب و وصل کی پیاس تھی :
چنگاری کوئی بڑھکے تو ساون اسے بجھائے
ساون جو اَگن لگائے ، اسے کون بجھائے
پہاڑی پر واقع اس ہوٹل کی ڈھلوان سے بس آہستہ آہستہ نیچے اتری اور پھر “صراط مستقیم” پر گامزن ہو کر حرم کو چل پڑی ۔ ایک انتہائی ترقی یافتہ جدید ترین مکہ شہر میرے سامنے تھا اونچی اونچی عمارتیں مجھے رسول مکرم  ﷺ  کی وہ حدیث یاد دلا رہی تھی کہ ڈیڑھ ہزار سال پہلے جب  آپ  نے خبر دی تھی  ۔۔

جب جبریل نے حضور کی مجلس مبارک میں حاضر ہو کر اسلام ، ایمان ، احسان اور قیامت کے متعلق دریافت فرمایا تھا ۔ چنانچہ جبریل نے آپ سے قیامت کے ظہور کے متعلق سوال کیا،آپ نے فرمایا:
اس مسئلہ میں مسئول سائل سے زیا دہ جانتا ہے تو پھر جبریل امین ﷩ فرمانے لگے کہ اس کی نشانیوں سے ہی آگاہ کر دیجیے  تو آپ نے فرمایا :
’’ لونڈی مالکہ کو جنم دے گی ، مزید یہ کہ تو دیکھے گا وہ لوگ جن کے پاس قدموں میں پہننے کے لیے جوتے نہیں ، تن ڈھانپنے کے لیے پوشاک نہیں ، آتش شکم سرد کرنے کے لیے نوالہ بھی میسر نہیں ، وہ بلند و بالا اور رفیع قامت عمارتوں پر فخر کرنے لگیں گے۔ ‘‘(صحیح مسلم: )

سعودی حکومت نے ان بنجر پہاڑوں اور خشک وادیوں میں سڑکوں کے اطراف کو یوں گل و گلزار کیا کہ فیض یاد آ گئے کہ
روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں
ریگ زار سے گلزار ہوئے ان راستوں پر ہوائیں چلتی ہیں تو جیسے گلوں میں رنگ بھر جاتے ہیں ، جیسے بادِ نوبہاراں چلتی ہے اور جیسے بیمار روحوں کو قرار آ جاتا ہے ۔ تمام تر ٹریفک بڑی ترتیب سے چل رہی تھی اور کسی جگہ بھی ٹریفک کا اژدہام نہ تھا حتیٰ کہ بس ایک پہاڑی کی سرنگ میں داخل ہو گئی ۔ مکہ میں جا بجا یہ سرنگیں بنی ہوئی ہیں ۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ تو یہی ہے کہ فاصلے سمٹ گئے ہیں ، دوسرا انجینئرنگ کا کمال اور انسانی ذہن کی زرخیزی کا مظہر بھی ہیں۔

جہاں سرنگیں کچھ طویل ہیں ، وہاں ان سرنگوں کی چھتوں پر اندرونی سمت بڑے جہازی سائز کے پنکھے لگے ہوئے ہیں ۔ جیسے ہوائی جہازوں کے پروں کے نیچے ڈھول نما انجن لگے ہوتے ہیں ، قریب قریب اسی شکل کے یہ بڑے بڑے ڈھول نما پنکھے ہیں جب وہ چلتے ہیں تو تیز آواز کی گونج پیدا ہوتی ہے ۔ ان کا مقصد طویل سرنگوں میں ہوا کا گزر اور گھٹن سے بچاؤ ہوتا ہے ۔ جن دنوں مکہ میں حاجی لکھوکھا کی تعداد میں جمع ہوتے ہیں اور ان سرنگوں میں پیدل سفر کرتے ہیں تب ان پنکھوں کی افادیت خاصی بڑھ جاتی ہے ۔ ہماری بس بھی ایسی ہی سرنگ میں داخل ہو چکی تھی اور کچھ ہی لمحوں میں باہر نکلی پھر وہی دائیں اور بائیں ہوٹلوں کا سلسلہ اتنے میں ایک اور سرنگ  آگئی ۔
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

جب اس سرنگ کے دہانے سے باہر نکلے تو یہ ہمارے سامنے ایک وسیع و عریض پختہ احاطہ تھا جہاں تار کول کا فرش بچھا تھا اور یہاں کافی بسیں پہلے سے کھڑی تھیں اور مسافر اُتر رہے تھے ۔ ہمارے عین سامنے سر پر کلاک ٹاور تھا کہ جس سے ہم کچھ وقت پہلے آنکھ مچولی کھیلتے مکہ میں داخل ہوئے تھے ۔ اب وہ ہمارے سر پر تھا ، یہ احاطہ کلاک ٹاور کے عین نیچے اس کی پچھلی سمت تھا ، جہاں مختلف ہوٹلوں کی یہ بسیں آ کر کھڑی ہوتی ہیں ۔ سارا کچھ شاندار تھا اور میں گو پہلے بھی کلاک ٹاور کو دیکھ چکا تھا لیکن کافی وقت بعد آیا تھا تو سب کچھ اچھا اچھا بھی لگ رہا تھا اور آنکھیں کچھ چندھیائی چندھیائی بھی تھیں کہ جیسے کوئی شخص مدت تک کسی اندھیرے غار میں رہے اور پھر روشنی میں آ جائے تو کچھ دیر کو اس کی آنکھیں نہیں کھلتیں ۔

پھر جب دل کی کیفیت بھی اپنے قابو میں نہ ہو تو سب کچھ ہی الگ الگ سا لگتا ہے، میری بھی کیفیت کچھ ایسی ہی تھی، قدم آہستہ آہستہ اٹھا رہا تھا اور دل تیز تیز دھڑک رہا تھا ۔ میں اکیلا نہ تھا سو مجھے اپنے ہم سفروں کو ساتھ لے کر چلنا تھا لیکن دل تھا کہ
پھر رک کر اپنے سر پر نگاہ بلند کیں ، دور فضاؤں میں کلاک ٹاور کا سنہری کلس ڈوبتے سورج کی روشنی مستعار لیے آسمان سے باتیں کر رہا تھا ، سنہرے کلس سے کچھ نیچے ایک بڑا سا گھڑیال زندگی کے شب و روز   گزرنے کی خبر دے رہا تھا ۔

ٹاور کے نیچے سے دو رویہ سڑک سیدھی حرم کے صحن کی دیوار کو جا لگتی ہے میں اس پر چل نہیں رہا تھا بس گھسٹ رہا تھا ۔ میں کہ احرام میں تھا اور گمان میں تھا کہ احرام کی سفید چادر گناہوں سے داغدار ہے ، پھر بھی طلب تھی ، پھر بھی چاہت تھی کہ میں اس کے حضور آؤں ۔ ۔ ایسا ہی آسان تھا ؟۔۔۔بہت مشکل ، بہت مشکل ، پھر میں کیا کرتا پھر وہ آ جاتا نا ، مجھ گنہگار کو اپنی رحمت کے نرم ملائم وجود میں سمیٹ لیتا
میں زمین پہ آکے بکھر گیا ہوں مجھے تھام لے
مجھے معصیت کا ملال ہے ۔۔ ۔میرے پاس آ
میرا رنگ روپ لباس ۔۔  ۔سب ہی بدل گیا
تیرے ہجر کا یہ کمال ہے ۔ ۔۔۔میرے پاس آ

طلب و حاضری کی ملی جلی کیفیات میں ، جستجو اور تلاش کی اسی کیفیت میں یہ زیر زمین راستہ بھی کٹ گیا ۔ دائیں اور بائیں دونوں اطراف برقی سیڑھیاں تھیں ۔ میں ان سیڑھیوں پہ داخل ہوا ۔ وہ اوپر کو جا رہی تھی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

سیڑھیاں حرم کے صحن نکل رہی تھی ، میرا رنگ روپ لباس سب ہی بدل گیا ۔ میرا خیال تھا کہ مغرب کی نماز صحن حرم یعنی مطاف میں ادا کروں گا لیکن ابھی بیرونی صحن میں کچھ ہی قدم چلا تھا کہ موذن کی آواز بلند ہوئی ۔۔۔۔۔۔ اللہ اکبر اللہ اکبر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک مناسب سی جگہ صف کا کونہ تلاش کیا اور میں نے اپنا ماتھا زمین پر رکھ دیا ۔۔۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply