بیرون ملک، پاکستان اور الیکشنز/راؤ کامران علی

گزشتہ دہائی میں عمران خان نام کا مسیحا ہماری قوم کو ملا اور ہم سب اس کو وزیراعظم بنانے میں لگ گئے، جس میں یہ ناچیز بھی پیش پیش تھ، عمران کی تعریفوں میں تحریریں لکھنے کے ساتھ ساتھ زرداری, نواز, الطاف اور مولانا کا ٹھٹھہ کرنا ہم نے اپنا قومی فرض سمجھا اور “جب آئے گا عمران” کے خوابناک ترانے گاتے رہے اور دعائیں مانگتے تھے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ایسا کیوں کرتے رہے؟ باقی سب کا تو پتا نہیں لیکن پاکستانی امریکن بالخصوص ہماری ڈاکٹر کمیونٹی عمران کے پیچھے اس لئے لگ گئی تھی کیونکہ
۱- ہمیں یقین دلا دیا گیا تھا کہ زرداری اور نواز چور اور لٹیرے ہیں اور ملک کو انھوں نے تباہ کیا ہے اور یہ بات مکمل طور پر غلط بھی نہیں
۲- عمران نے شوکت خانم، نمل اور ورلڈ کپ دیا یعنی ملک سے مخلص ہے اور سچا لیڈر ہے
۳- ہم جیسے کرولا کو دیکھ کر رالیں ٹپکانے والے جب امریکہ آکر مرسڈیز ، ٹیسلہ سے کم پر بات نہیں کرتے تو وزیراعظم بھی ہماری ego کے لئے ہمارے لیول کا ہو، فر فر انگریزی بولتا دنیا میں جانا مانا برینڈ ہو اور عمران سے بہتر برانڈ کیا ہوگا! تو احساس برتری کا شکار ہم براؤن امریکیوں کو آکسفورڈ کا پڑھا وزیراعظم چاہیے تھا۔
اور اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ عمران آگیا۔۔اور اکانومی مزید خراب ہو گئی۔

وجہ جو بھی ہو،فوج ہو، باجوہ ہو، کووڈ ہو، نواز کا چھوڑا گند ہو لیکن عمران کے تین سالوں میں عوام کی توبہ توبہ ہو گئی،ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مٹی بن گیا، چینی اور آٹا خواب بن گیا اور بجلی کے بلوں نے لوگوں کی زندگی عذاب بنا دی ، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم جیسے “عمران برینڈ” کے شائقین امریکیوں کو اس سے کیا فرق پڑا ؟ کچھ بھی نہیں۔ پاکستان میں اکانومی کی اس تباہی کے دنوں میں ہمارے امریکہ میں کاروبار بڑھے، گھروں کے سائز بڑھے لیکن بجلی کے بل نہیں، ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مٹی تو پاکستان میں ہوا ناں، ہمارے لئے تو روپے کے مقابلے میں ڈالر سونے سے ہیرا بن گیا۔عمران کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت میں جیسے ہی ڈالر نے  تین سو کو کراس کیا، پاکستانی امریکیوں نے کروڑوں ڈالر کی جائداد پاکستان میں خریدی، جن میں پی ٹی آئی کے سرکردہ لیڈران شامل ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ، ہم پر پاکستان میں مہنگائی کے عذاب کا ٹکے کا اثر نہیں پڑتا بلکہ ڈالر نیچے جانے سے مزید چاندی ہوجاتی ہے۔ تو یہ امریکی پاکستانیوں کے لئے تو نہ ہوئی۔ تو کیا پاکستان میں بسنے والے پاکستانیوں کا بیرون ملک پاکستانیوں سے یہ سوال نہیں بنتا کہ “ بھائی تم لوگ ہو کون؟”   اپنے خیالات اپنے جذبات اپنے تک رکھو۔ اگر ملک سے اتنا ہی پیار ہے تو واپس آؤ اور سکھ دکھ ساتھ برداشت کرو، لوڈ شیڈنگ مہنگائی لاقانونیت ہمارے ساتھ بھگتو، یہ کیا کہ امریکہ یورپ میں کام سے واپس آکر تم لوگوں کی سوشل لائف تو کوئی ہے نہیں اس لئے فیس بک اور ٹویٹر پر ہمارے سگے اور خیر خواہ بن جاتے ہو، جس انتخابی عمل کے نتائج بھگتنے میں، مہنگائی اور لاقانونیت کی بے چینی میں تم ہمارے ساتھ نہیں ہو تو ہمارے ملک کے جمہوری عمل پر اثر انداز ہونے پر بھی تمھارا کوئی حق نہیں۔

اچھا اب مجھ جیسے یہ دعوے کریں گے” ہم” نے پاکستان کے لئے یہ کیا وہ کیا، اب آپ ایسے بندے کو ٹوک کر کہیں کہ “ہم” چھوڑو یہ بتاؤ “تم” نے کیا کیا؟ یقین جانیں وہ بغلیں جھاڑے گا۔

میں پاکستانی امریکن ڈاکٹروں کی اپنی برادری کی ہی مثال دے دیتا ہوں۔ اگر بیس ہزار سے زائد ڈاکٹروں میں سے صرف پانچ سو ڈاکٹرز سال میں ایک بار ایک مہینے کے لئے آکر پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں میں خدمات سر انجام دے دیں تو سوچیں ہیلتھ کیئر کا اسٹینڈرڈ کیا ہو لیکن نہیں یہ خدمات نہیں، شام کو آتشدان کے سامنے بیٹھ کر چائے پیتے ہوئے ”عقل” پیش کرنا چاہتے ہیں (راقم کی طرح)

آنے والے الیکشنز میں سوچ سمجھ کر ووٹ دیں کہ کون سا امیدوار ایماندار اور ملک کا خیر خواہ ہے، چاہے وہ کسی بھی پارٹی کا ہو یا آزاد ہو۔ بہت سے امیدوار اس الیکشنز میں سابقہ ایم این اے یا وزیروں کے بچے ہیں اور ایچی سن یا گرائمر اسکولز سے پڑھے ہیں۔ انھیں ہرگز ووٹ نہ دیں۔ اسے ووٹ دیں جس کے بچے اسی اسکول میں پڑھتے ہوں جس میں آپکے پڑھتے ہیں۔ علاج سرکاری ہسپتال سے نہیں تو بھی آپکے شہر میں ہی پرائیویٹ ہسپتال سے کرواتے ہوں ناکہ لندن امریکہ جاتے ہوں۔ انکے اوپر کرپشن کا داغ نہ ہو، اب بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں لیکن ایسا ہے۔ میں اپنے شہر کے سیاستدانوں سمیت بہت سے ایسے سیاستدانوں کو جانتا ہوں جو کرپٹ نہیں ہیں، ن کے بھی ہیں اور پی ٹی آئی کے بھی، پی پی پی کے بھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر پیسے لئے جارہے ہیں جو کہ غلط ہے لیکن ایک غلطی کا مطلب دوسری غلطی نہیں۔ پیسے جس سے بھی لئے ہیں اندر جاکر ووٹ اپنی مرضی اور ضمیر کے مطابق ڈالیں اور قسم کا کفارہ ادا کردیں۔ میں نے آج تک جھوٹی قسم نہیں کھائی لیکن اپنے ملک کے فائدے کے لئے کھانی پڑی تو دوسری بار نہیں سوچوں گا۔ حالات بد سے بدتر بھی ہوں تب بھی جمہوریت ہی بہترین راستہ ہے حالات کو بتدریج بہتر کرنے کا، آندھی آئے یا طوفان ووٹ ضرور ڈالیں اور اپنا خیال رکھیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply