“مضمون میں بیان کیے گئے خیالات مصنف کے ذاتی ہیں اور مکالمہ انکی تصدیق نہیں کر سکتا۔ ہم نے محترم محسن داوڑ سے رابطہ کی کوشش کی مگر ممکن نہیں ہو سکا۔ البتہ اگر وہ جواب دینا چاہیں تو مکالمہ کا پلیٹ فارم حاضر ہے”
برسوں سے پشتون قوم پرست اور قبائلی نوجوانوں سے کہتے کہتے تھک گیا تھا کہ محسن داوڑ پشتون تحفظ موومنٹ کیلئے ایک ناسور ہے مگر جذبات میں اندھے نوجوانوں کو قبائلی احساسِ تفاخر نے اس قابل نہیں چھوڑا تھا کہ وہ میری بات پر دھیان دیتے۔ یہ بندہ جب افغانستان دورے پر کابل گیا تو سب سے پہلے میں نے کہا تھا کہ اس پر سرمایہ کاری ہو رہی ہے، محسن داوڑ 2019 تک اتنا مضبوط ہوچکا تھا کہ پشاور کی بڑی طاقتیں اس کی فون کال کیلئے بے تاب رہتی تھیں۔ پس پردہ یہی بندہ جب بلاول ہاؤس میں بھی مضبوط تعلقات استوار کرچکا تھا۔ حالانکہ پاکستان پیپلز پارٹی سے کراچی میں قتل کئے گئے نوجوان نقیب اللہ کیوجہ سے پشتون نوجوان کافی نالاں تھے۔
منظور پشتین کی تحریک سے اُبھرے ہوئے اس محسن داوڑ نے پشتونوں کو دو حصّوں میں تقسیم کرنا شروع کردیا تھا۔ عمران خان کی حکومت ختم کرنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کو ہمیشہ ایسے بندوں کی تلاش ہوتی تھی جو عمران خان کے بیانیے کی نفی کرسکے۔ کیونکہ عمران حکومت خاتمے کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے منظور پشتین کے بیانیے کی تائید کی۔ جس کی وجہ سے تحریک انصاف کے پشتون نوجوانوں نے منظور کی طرف رجوع کرنا شروع کیا۔ محسن داوڑ کو یہ ٹارگٹ ملا تھا کہ پشتون نوجوان جو منظور پشتین کا حمایتی ہے ،کا الیکشن تک پشتون رستہ روکا جائے۔ جواب میں منظور اور محسن کے بیچ تلخ کلامی ہوئی جس میں منظور نے محسن کو دھمکی دی کہ وہ کچھ اہم راز طشت از بام کردیں گے۔
پاکستانی اداروں کو بین الاقوامی انسانی حقوق تنظیموں کا عمران خان کے حوالے سے زبردست دباؤ کا سامنا ہے ،مگر محسن داوڑ صرف آٹھ مئی تک منظور کی گمشدگی کا خواہشمند ہے تاکہ ووٹ لیکر اسمبلی پہنچ جائے اور ایک دفعہ پھر پارلیمان کے سائے تلے اپنی عیاشیوں کا سامان پیدا کرسکے۔
یہ فیصلہ اب کل ہوگا اس کے بعد منظور پشتین پھر ہمارے سامنے ہوگا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں