بھارت یا افغانستان ۔۔اظہر سید

بھارت سے دوستی ہو جاتی ،کارگل نہ ہوتا ،محترمہ بینظیر بھٹو کی سارک اکنامک یونین اور مشترکہ کرنسی کی تجویز کو غداری نہ قرار دیا جاتا ۔افغانستان میں مداخلت کے من موہن سنگھ کے اعتراف اور معاملات درست کرنے پر آمادگی کی صدر زرداری کی کامیابی کو برباد نہ کیا جاتا تو پھر افغانستان میں بھارت پاکستان مخالف پراکسیاں بھی پیدا نہ کرتا ۔بھارت کے ساتھ دوستی ہو جاتی بلوچستان میں بلوچ قوم پرستی کو بیرونی معاونت بھی نہ ملتی ۔پاک بھارت تعلقات بہتر ہوتے تو طالبعلموں کی مدد بھی نہ کرنا پڑتی ۔اشرف غنی کی صورت میں پاکستان دوست حکومت چلتی رہتی ۔طالبعلموں کی کامیابی کے بعد افغان جیلوں میں قید ہزاروں داعشی اور پاکستانی طالبعلم بھی رہا نہ ہوتے اور حب الوطنی کے پہاڑوں کو پاکستانی طالبعلموں سے مذاکرات کے افغان طالبعلموں کے مطالبہ کو بھی نہ ماننا پڑتا ۔
عالمی برادری اور امریکی اشرف غنی حکومت کی مدد جاری رکھتے اور پاکستان پر انتہا پسندوں کی مدد اور معاونت کا الزام نہ لگتا ۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی تلوار نہ لٹکتی ۔

آج پاکستان کو کسی بھارتی حملے کا خطرہ نہیں بلکہ بھارتی پریشان ہیں پاکستان کا عدم استحکام پورے خطہ کو تہہ بالا نہ کر دے ۔ہمیں تو خدشہ ہے بھارتی کہیں بنگلادیشیوں سے مل کر مالی معاونت کی پیشکش نہ کر دیں ۔
بساط پر غلط چالیں ہمیشہ چلیں پہلے امریکی خزانہ سے چالیس سال تک معاونت ہوتی رہی ۔پھر سی پیک کی صورت میں چینی ڈالر لے کر آ گئے ہم نے بڑی محنت اور جانفشانی کے ساتھ امریکیوں کی جان بھی افغان کمبل سے چھڑا دی اور طالبعلموں کی حکومت بنوا کر امریکی خزانہ سے ڈالروں کی نکاسی بھی روک دی ۔

ہم نے پوری محنت کے ساتھ چینیوں کی سی پیک میں سرمایہ کاری بھی بند کرا دی اور ان تھک محنت کے ساتھ ملکی معیشت بھی عالمی مالیاتی اداروں کے کنٹرول میں دے دی ۔
ان ظالموں نے عظیم عقلمندوں نے اپنے ہی ادارے کو پاکستانی عوام کے سامنے ولن بنا دیا ۔اسٹیٹ بینک کی خودمختاری پر قانون کے سازی کا مطلب یہ ہے اب کمرشل بینک ہی حکومت کو قرضے دیں گے اور امیر سے امیر تر ہوتے جائیں گے ۔خود مختاری کا مطلب ہے اب اسٹیٹ بینک کے تین ماہ ،چھ ماہ اور ایک سال کے بانڈ حکومت نہیں خرید سکے گی ۔

تمام اکاؤنٹس اسٹیٹ بینک ہینڈل کرے گا اور تمام اخراجات کی نگرانی ہو گی ۔دفاعی بجٹ کم ہو گا ۔یہ کارنامہ انہوں سے سرانجام دیا ہے جو آئین اور قانون پر چلنے کا حلف اٹھاتے ہیں ۔
مولانا فضل الرحمن ،اصف علی زرداری اور نواز شریف تینوں نے اپنے اپنے حساب میں ظلم ،میڈیا ٹرائل اور عدالتی فعالیت کا مزا چکھا ہے ۔کوئی بھی آگے بڑھ کر ریسکیو کرنے یا کاندھا دینے کیلئے تیار نہیں ۔

عالمی مالیاتی ادارے صحتیابی کے سرٹیفکیٹ کے بعد ہی اعانت کریں گے اور صحتیابی کا سرٹیفکیٹ آئی ایم ایف سے ملے گا اور آئی ایم ایف کے بورڈ آف ڈائریکٹر میں فیصلہ سازی کا ووٹ امریکیوں اور ان کے حلیف مغربی ممالک کا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

افغانستان کو پانچواں صوبہ سمجھنے کی غلطی یا بلنڈر گلے پڑ چکا ہے ۔وہاں انسانی المیہ رونما ہو چکا ہے اور یہاں رونما ہونے کی علامتیں نظر آنے لگی ہیں ۔
طالبعلموں کو افغانستان میں کامیاب کروا کر امریکیوں اور مغربی حلیفوں کو جان چھڑانے اور پیسے بند کرنے کا موقع دے دیا ہے اب بھگتیں گے سارے پاکستان والے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply