طاقت کی غلام گردشوں میں ہمیشہ مختلف داؤ پیچ استعمال کیے جاتے ہیں ۔مختلف مواقع کے لیے لسانی، مذہبی، علاقائی اور وطنی عصبیت کو استعمال کرکے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی کوشش کی جاتی ہے ۔اس کے لیے باقاعدہ مہرے مختلف طبقات میں بطور لیڈر تیار کیے جاتے ہیں ۔۔جس کے پھر بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں ۔
حالیہ عشرے میں جب پوری قوم دہشت گردی کے تباہ کُن سیلاب سے بہت سی جانی اور مالی قربانیوں کے بعد امن کی طرف راغب ہوئی تو اقتدار پرست قوتوں نے ایک بار پھر اپنے مہرے کو طاقت کے ایوان تک پہنچانے کے لیے جھتے مذہبی نعرے کے ساتھ تیار کیے ۔اور اس کا مظاہرہ پھر پوری قوت کے ساتھ فیض آباد میں دیکھا جاتا رہا ۔
بے ہنگم، جذباتی، اَن پڑھ، پسماندہ منظر کے حامل کارکن فیضی سکّہ رائج الوقت 1000 روپے کی ادائیگی پر دندناتے پھرتے رہے اور حکومت بے بس نظر آتی رہی۔
وقت آیا، جھتے پاور پالیٹکس میں مضبوط بے رحم عفریت کے ساتھ من پسند حکومت جس کو اقتدار تک پہچانے کے لیے استعمال ہوتے تھے خود اسی دور میں چیلنج کا باعث بنے ۔
اُڑا دو، مار دو کاٹ دو کے نعروں نے شریعت، قانون اور ریاست کی علم برداری مٹی کی دھول کی طرح اُڑا دی ۔
ماسٹر مائنڈ چلے گئے ۔منصوبے ناکام ہوئے ۔ پوٹھوہار کی سرزمین میں وقت گزارتے منصوبہ ساز قوم کو سانحہ جی ٹی روڈ، سانحہ جڑانوالہ جیسے تنا آور درخت دے گئے ۔
اَن پڑھ سے پڑھے لکھے احمق مذہبی اور سیاسی کارکن سماج کی جھولی ڈال کر آج خود پریشان ملک کے مستقبل کو اندھیر کیے دنیا بھر میں تماشا بنائے صاف دامن بیٹھے ہیں ۔۔اور خود کو اب بھی محب وطن کہلوانے پر بضد پھر کسی جج سیٹھ وقار کے منتظر ہیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں