منافقت میں لِتھڑا معاشرہ/ڈاکٹر حفیظ الحسن

ہمارے معاشرے میں خواتین کس قدر محفوظ ہیں اسکا دعویٰ کرنے والے اور فخریہ اس بات کو سینہ ٹھوک کر پیش کرنے والوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر اگر کوئی خاتون انکی مرضی اور انکی قائم کردہ حدود کے مطابق کپڑے نہ پہنے تو اسے جن القابات سے نوازا جاتا ہے اور گالیاں دی جاتی ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔ جیسے یہ خود دنیا کے سب سے بڑے پارسا ہیں۔ گالی دینے سے کیا اخلاقیات سکھائی جا سکتی ہیں؟ آپکا گالی دینا بذاتِ خود اس بات کی دلیل ہے کہ سب سے پہلے آپ کو اخلاقیات سیکھنے کی ضرورت ہے اور جن تعلیمات کس آپ گالیاں نکال کر پرچار کرتے ہیں کہ وہ کسی انسان کو با اخلاق بناتی ہیں، اُس سے کون متاثر ہو گا؟ کہ وہ تعلیمات اب تک آپکو نہیں بدل سکیں یا گالی نہ دینے سے روک سکیں تو کسی اور کو کیسے با “اخلاق” بنائیں گے؟ اور اگر بنائیں گی تو وہ بھی آپکی طرح ہی گالیاں دےکر ان کا پرچار کرے گا؟
ایسے ہی ایک اور تناظر میں اس ہفتے عدالت کینجانب سے آنے والے کوئٹہ ویڈیو سیکنڈل کا فیصلہ ایک اور منافقانہ رویے کی طرف توجہ دلاتا ہے۔2021 میں منظرِ عام پر آنے والے اس سیکنڈل میں دو بھائی متاثرہ لڑکیوں یا خواتین کو بے ہوش کر کے اّنہیں برہنہ کرتے اور پھر انکی نازیبا ویڈیوز اور تصاویر بناتے۔ یہ خواتین اس “عورت کو عزت دینے کا بھرپور دعویٰ کرنے والے معاشرے” میں اس کیس میں معاشرے میں بدنامی کے خوف سے گواہی تک نہیں دے سکیں۔
اسکی ایک وجہ یہ کہ ہمارے معاشرے میں مردوں کو عورت کے ساتھ زیادتی کے بعد یہ نہیں سکھایا جاتا کہ ظلم عورت کے ساتھ ہوا ہے سزا اُسے نہیں اُس شخص کو دی جانی چاہیے جس نے زیادتی کی۔ بدنامی اُس شخص کی ہوجس نے یہ جرم کیا نہ کہ عورت کو مزید سزا دی جائے کہ وہ چپ رہے، احتجاج نہ کرے؟
یہی رویہ مرد اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر تو نہیں اپناتے نہ ہی وہاں “مصلحت” سے کام لیتے ہیں۔
کیا یہ بات المناک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں زیادتی کا شکار عورت بولے تو اسے فحاشہ کہا جاتا ہے؟ کیا یہ دوغلا معیار نہیں؟ یہاں آپکی بچپن کی تعلیمات اور عدل و انصاف کے درس کہاں اُڑ جاتے ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ منافقت اور تضادات سے لتھڑا معاشرہ ہے جہاں لوگ اپنے ہی بنائے اُصول دوسروں پر لاگو کرنا چاہتے ہیں مگر خود پر نہیں۔ اپنی باری پر سو تاویلیں اور سو مصلحتیں اور سو گنجائشیں منافقت کی پٹاری سے نکال لاتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply