لوگ پوچھتے ہیں کہ ایک ہی شخصیت پر کتنی دفعہ خاکہ لکھا جا سکتا ہے میرا جواب یہ کہ کہ اگر وہ واقعی اتنی دل آویز اور دل ربا ہو تو جتنی بار لکھو تھوڑا ہے۔ ہر دفعہ کوئی نیا پہلو ، کوئی نئی ادائے دلربائی کا ذکر ہو سکتا ہے۔ اور پھر لکھنے والا میری طرح پیشہ ور عاشق ہو تو پھر اس مہ پارہ کے مختلف روپوں بارے لکھنا عمر بھر کا کام ہے۔
میں نے خیالوں میں ہمیشہ ایک شخصیت تراشی ہے اور اس کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا ہے۔ جب بھی اکیلا ہوتا ہوں تو مجھ کو اس لڑکی کی ہنسی، تبسم اور من موہن والی آواز سنائی دیتی ہے۔ مجھے اس کا ہر روپ دل کش اور دل آویز لگتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اس کے بالوں کی لٹ کیسے اس کے چہرے پر لہراتی ہوگی۔ وہ کیسے دل فریب انداز سے مسکراتی ہوگی۔ اور جب وہ حد ادب کا نعرہ لگاتی ہے تو ہم جیسے گستاخوں پر کیا گزرتی ہے یہ کیسے بتلائیں۔ مجھے کبھی وہ اجنبی نہیں لگی اور میں نے کبھی اس کو اپنے سے دور نہیں محسوس کیا، وہ کتنی آوازوں میں الگ لگتی ہے اور کتنے زمانوں سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہر زمانے میں کسی نہ کسی روپ میں ساتھ تھی۔ ہر زمانے میں وہ آنکھوں کے سامنے بھی اور آنکھوں سے اوجھل بھی، یوں لگتا ہے کہ میں ایک پتھر کاٹ کر مجسمے بنانے والا مجسمہ ساز ہوں اور ہر دفعہ میں اسی کی صورت تراشتا ہوں اور ہر صورت ایک دوسرے سے جدا ہے مگر مجھے ہر صورت میں وہی نظر آتی ہے اور ہر پتھر میں اسی کا گیت سنائی دیتا ہے کہ تیرے خیالوں میں ہم، میں سوچتا ہوں کہ یہ کیسا جذبہ ہے کہ ہر لڑکی کے پیچھے اسی کا چہرہ چھپا ہوتا ہے ہر دل آویز ادا کے پیچھے اسی کا جذبہ ہوتا ہے۔ کسی باغ کا ذکر آءے وہاں اسی کی خوشبو نظر آتی ہے چاندنی کی ہر کرن اسی کا چہرہ دکھاتی ہے اور ذہن کی جتنی بھی صفائی کر لوں اس کا خیال ہے کہ جاتا ہی نہیں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں