رنج سے خو گر ہُوا انساں، تو مٹ جاتا ہے غم
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گیئں
جس طرح کسی سیانے بندے کا کہنا ہے(فی الحال وہ بندہ ملا نہیں) کہ ہر مشکل میں چاہے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی ،ان مشکلات میں کچھ تعمیری اور مثبت پہلو بھی ہوتے ہیں ،شرط یہ ہے کہ ان مشکلات سے گزرنے والا فرد یا معاشرہ اپنے کئے گئے اقدامات اور قول و فعل کا ناقدانہ جائزہ لے اور جہاں جہاں دانستہ یا نادانستہ غلطیاں اور کوتاہیاں ہوئی ہیں ان کو سدھارا جائے اور ان کا ازالہ کیا جائے۔
عمران خان اور اسکی پارٹی پر یہ جو مشکل وقت آیا ہوا ہے،(کیتیاں اَگّے آئیاں نیں) اس کو صبر و تحمل(جس کی اس میں بہت کمی ہے)اور تدبر سے گزارے اور اس مشکل اور بحران میں جو مواقع چھپے ہیں ان کو حاصل کرکے فائدہ اٹھائے۔
پی ٹی آئی میں آج کل پرندے دن رات اُڑانیں بھر کر عمران خان اور پی ٹی آئی کو چھوڑ کر جا رہے ہیں ان میں سے صرف کچھ ایسے لوگ تھے جو واقعی پی ٹی آئی کے نظریات سے جڑے تھے باقی زیادہ تعداد طوطا چشم اور ابن لوقت قسم کے لوگ تھے جن کی روانگی عمران خان کو نیک شگون کے طور پر لینا چاہیے اور باقی اسی قسم کے جو لوگ رہ گئے ہیں مثلاً شاہ محمود قریشی، آپکی اہلیہ محترمہ وغیرہ وغیرہ ان کو خود سے اور پارٹی سے خدا حافظ کہہ دینا چاہیے ۔
اگر عمران خان کو یہ یقین ہے کہ ووٹ صرف اورصرف عمران خان کے نام کا ہے اور عمران خان ہی پی ٹی آئی ہے تو خان کو بلا جھجک آئندہ آنے والے الیکشن میں پورے ملک میں پی ٹی آئی کی بہت بڑی تعداد میں ٹکٹیں اپنے نیک نام مڈل کلاس سپورٹرز، سابقہ کرکٹرز،میانداد،سلیم یوسف،شعیب اختر،وغیرہ،سابقہ ہاکی پلیئرز اصلاح الدین،حسن سردار،کلیم اللہ وغیرہ ،شاعروں،ادیبوں، فنکاروں کو دینی چاہیے ۔اس طرح ملک میں ایک نیا سیاسی کلچر اور نئی سیاسی کلاس پیدا ہو گی۔
بغیر پیسہ خرچ کیے اگر عام بندے کو ایک نیشنل پارٹی کی الیکشن ٹکٹ مل جائے اور وہ الیکشن بھی اندھا دھند رقم خرچ کیے بغیر جیت جائے تو سوچیے سیاست اور سیاستدان ایک کاروباری کی بجائے ایک فلاحی اور مفاد عامہ کا نمائندہ بن جائیگا کیونکہ اس نمائندہ نے رقم کی صورت میں الیکشن اور سیاست میں کوئی سرمایہ کاری نہیں کی ہو گی۔ اس خوبصورت سیاسی کلچر کا تصور ہی بڑا خوش کن ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ستر کی دہائی میں مڈل کلاس سیاسی لوگ متعارف کروائے تھے اس کے بعد ضیاءالحق نے اسّی کی دہائی میں کاروباری سیاسی کلاس متعارف کروائی، جس کا خمیازہ پاکستان آج تک بھگت رہا ہے اور یہی سیاسی قیادت آج تک قابض ہے۔
صرف عمران خان کے پاس اس وقت ایک سنہری موقع ہے وہ ایک نئی صاف شفاف سیاسی قیادت متعارف کروا سکے۔ جس کے ذریعے ایک فلاحی ریاست کے تصور کی تکمیل ہو۔
خان صاحب یہ تصور صرف اور صرف نئی سیاسی قیادت کی اہلیت اور قابلیت سے ہی پورا ہو سکتا ہےکسی دربار جادو ٹونے اور جنتر منتر سے نہیں۔
اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو,آمین !
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں