ہنسے تو پھنسے۔۔ناصر خان ناصر

ہمارا معاشرہ بدقسمتی سے اداسی، غم اور دکھ کو خوشیوں پر ہمیشہ ترجیح دیتا چلا آیا ہے۔ ہماری شاعری نوے فیصد افسردگی، اداسی اور رنج و الم سے مزیّن ہے۔ کہیں فکر معاش ہے تو کہیں فکرِ  فردا۔ رہی سہی کسر محبوب کے ہجر و وصال نے یوں پوری کر دی ہے کہ محبوب کے قدموں میں بیٹھ کر آٹھ آٹھ آنسو بہائے بِنا ہمارے شاعروں کے دل کو نہ دن کا چین میسر ہے، نہ رات کا آرام۔ پھر تقدیر کے شکوے نالے سے دل کے پھپھولے پھوڑنے کے بعد ظالم سماج اور رقیب روسیاہ کے رونے شروع کیے جاتے ہیں۔
ریں ریں کرتی اس بھیرویں کے الاپ یہیں  رک جاتے تو غنیمت تھا، مگر صاحب کیا کیجیے کہ
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔

ہمارے مرنے کے بعد زودپشیماں کا پشیماں ہو کر سر میں خاک ڈالنے کا عمل ابھی باقی ہے۔ اپنی لٹیا خود ڈبو کر بے وفا سے عشق کرنا اور گالیاں کھا کر بھی بے مزہ نہ ہونا اپنے ہاں عشق کی معراج سمجھا جاتا ہے۔ کوئی  ایک لوک قصہ ہی کھول کر، دیکھ کر ڈھونڈ کر ہمیں دکھا دیں، جس میں پیار کرنے والے ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے ہوں۔ مرے کو مارے شاہ مدار۔۔

شاعری تو  شاعری، ادب و موسیقی، زندگی کی ہر رسم و ریت، گیت سنگیت، ہر ایک صنف ادب، افسانے، ناول، آپ بیتیاں، دوہے، مرثیے، ٹپےلوک گیت، کجریاں الاپ ایسی ایسی غم ناک المناکی کا ٹچ لیے ہوئے ہیں کہ اللہ معافی۔ ہمہ وقت صف ماتم بچھی رہتی ہے۔

سچ ہے کہ سارے معاشرے میں ہر سمت ایک سوگ بھری سماگ بھری ہو تو دل و دماغ یوں ہی پراگندہ کیوں نہ ہوں؟۔
ہمارے ہاں تو فلمیں بھی وہی کامیاب ہوتی ہیں جنہیں دیکھ کر خواتین دھاڑیں مار کر روئیں اور اپنی اپنی آنکھیں سجا کر گھر واپس لوٹیں۔ ٹی وی اور سٹیج ڈراموں کا بھی یہی حشر نشر ہے۔ ہماری ہر تیسری فنکارہ ملکہ جذبات ہے اور گھڑی گھڑی بیٹھے بٹھائے ٹسوے بہانے کو اداکاری کی معراج سمجھا جاتا ہے۔ جیسا منہ ویسا تھپڑ ۔
پبلک جو ڈیمانڈ کرتی ہے، وہی اسے سپلائی  کیا جاتا ہے۔
چور جواری، گٹھ کٹا جار اور نار چھنار، سو سع سوگند کھائیں جو مول نہ کر اتبار۔۔۔
اپنے ہاں شاید کسی نے یہ سنا ہی نہیں کہ
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں۔

شادیوں تک میں لوگ رونی صورت بنائے پھرتے ہیں۔ اللہ جانے سب کو یہ حسرت ہوتی ہو گی کہ ان کا بیاہ ہو گیا اور ہم کنوارے رہ گئے۔ بیاہے بھی دوسری لانے کی فکر میں ہیں۔ ریں ریں کرتے ناک سنکتے بچے ایک سے نہیں سنبھلتے تو دوسری لانے کی فکر کماحقہ لاحق ہے۔

تصویر کھنچواتے مسکراتے ہوئے تو جیسے موت پڑتی ہے۔ بھئ اس پر کوئی  دام تھوڑا ہی لگتے ہیں کہ چھپے خزانے کو کسر لگ جائے گی۔
ٹھیں ٹھیں ہنسنے سے کونسا بھونچال آ جاتا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

دوسروں کو مسکرا کر دیکھنا راحت ہے اور راحت کے پھول بکھیرنا ثواب۔ ہنسی طریقہ علاج بھی ہے اور چھوت کا مرض بھی۔ ذرا تصور کیجیے کہ ہم یہ لکھتے ہوئے ہنس رہے ہیں۔
ارے آپ بھی تو مسکرانے لگے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply