ماسی جیواں۔۔ثمینہ

ماسی جیواں اور انکی پوتی میدو
ماسی اللہ جوائی  عرف جیواں میرے بچپن کا ایک اور لازوال کردار ہیں،ماسی ہمارے گاؤں کی نائن ہیں اور ہمارے خاندان برادری کی کوئی  بھی خوشی غمی کی تقریب انکی سروسز کے بغیر ادھوری ہی سمجھی جاتی تھی، صائمہ کی شادی پہ بھی ماسی جیواں موجود تھیں جبکہ میری شادی کے موقع پر انکی بہو کی سروسز ہائر کی گئیں، ماسی اپنی پیرانہ سالی کے باعث اب ریٹائرمنٹ لے چکی ہیں اور انکی گدی اب انکی بہو اور پوتی میدو سنبھال چکی ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مجھے عرصہ دراز کے بعد ماسی جیواں کیوں یاد آگئیں۔ یہ کل کی بات ہے میں جب گھر لوٹی تو افراد خانہ سمیعہ (کزن) کی منگنی کے فنکشن پہ جانے کیلئے تیار بیٹھے تھے، میں خاندانی تقریبات میں جانے سے یوں بھی کنی کتراتی ہوں اور شاذونادر ہی کسی فیملی تقریب کا حصہ بنتی ہوں۔ وجہ بس مصروفیت اور ایسی تقریبات میں عدم دلچسپی ہے، خیر میں امی پہ  پہلے ہی واضح کر چکی تھی کہ میرا جانے کا کوئی  ارادہ نہیں، مگر امی پھر بھی کل مجھے یونیورسٹی سے آف کروا کےجذباتی بلیک میلنگ کے سہارے ساتھ لے جانے میں کامیاب ہو گئیں اور حیرت انگیز طور پہ کئی  سال بعد کسی فیملی تقریب کا حصہ بن کے بے پناہ خوشی محسوس کی،اور یہ اسی خوشی اور فیملی والوں کے خلوص کا اثر تھا کہ میں نے سمعیہ،کنول اور عباس بھائی  (دولہا)کی بہنوں شینا اور یاسمینہ سے اگلے ہفتے شادی پہ آنے کی کمٹمنٹ بھی کر لی،اور مجھے اس فنکشن پہ جا کے پتہ چلا کہ ماشاءاللہ میری فیملی کی لڑکیاں کتنی ٹیلنٹڈ ہیں اور علمی میدان میں کیسے کیسے جھنڈے گاڑ رہی ہیں۔ سمعیہ،کنول،سمیرا،ماریہ،قرات العین، امبرین اور دیگر کئی کزنز کی کامیابیوں کا جان کے دل کو بیحد خوشی ہوئی ۔

خیر بات لمبی ہو گئی  ،واپس ماسی جیواں پہ آتے ہیں۔ کل کے فنکشن پہ عرصہ دراز کے بعد میدو اور ماسی جیواں کی بہو سے ملنے کا اتفاق ہوا ،ماسی اور انکے میاں چاچا کریم ہمارے گاؤں کے متحرک ترین کردار رہے ہیں۔ ہر خوشی غمی میں پیش پیش،ماسی جیواں کسی بھی شادی کے موقع پر مہینہ پہلے سے متعلقہ گھرانے کا کچن سنبھال لیتی اور کھانا پکانا برتنوں کی دھلائی ،یہ تمام امور وہی سر انجام دیتی وہ کچن کی مالک کُل ہوتی اور گھر کی بیبیاں محض انکی ہیلپرز،ہر آۓ گئے  مہمان کو وہی بھگتاتی اور یہ تمام امور وہ اتنے حسن ِ انتظام اور خوش اسلوبی سے سرانجام دیتی کہ  گھر کی بیبیوں کو کوئی  فکر ہی نہ رہتی۔ ماسی کی خدمات تب بھی حاصل کر لی جاتیں ، جب زیادہ مہمان اچانک سے وارد ہو جاتے ،مجھے ایسا ہی ایک واقعہ یاد پڑتا ہے۔ میں اس وقت کلاس ون میں تھی ایک دن جب میں اور صائمہ  گرمیوں کے دنوں میں بستے جھلاتی سکول سے گھر واپس پہنچیں، تو امی کی جگہ ماسی جیواں کو چو لہے پہ مصروف دیکھ کے میرے ماتھے پہ بل پڑ گئے، اور ذہن میں فوراً  یہ سوچ در آئی  کہ ہمارے گھر میں تو کوئی  شادی نہیں تو ماسی کیوں کھانا بنا رہی ہیں ،یا یہ کہ ہمارے گھر میں کوئی  شادی ہے اور ہمارے اماں ابا کس قدر ظالم لوگ ہیں کہ گھر میں شادی ہونے کے باوجود آج کے دن بھی سکول بھیج دیا ،کیا تھا جو ہمیں چھٹی کروا لی جاتی،اور یہ خیال آتے ہی میرا بھاں بھاں کر کے رونے کا دل کرنے لگا،خیر ہم آگے بڑھے اور ماسی جیواں سے انکی وجہ نزول دریافت کی تو پتہ چلا کہ پھوپھو شہناز مع اہل و عیال چیچہ وطنی سے آئی  ہوئی  ہیں اور امی کی طبعیت ٹھیک نہیں ۔ساتھ ہی اپنے مخصوص لہجے میں ہمیں ہدایات جاری کیں”نی دھیاں او بستے لاہوو چاں ہتھ مونہہ دھو لوو وردیاں بدلو تے ایہہ شکنجی (سکنجبین)بنڑی پئی نے برف کائی  نی پائی  کولر وچوں برف کڈھ تے پا لوو آپ ای پیوو تے مینوں وی دیو۔”

پھر منظر بدلتا ہے اور اس دفعہ ماسی میری جواں سال چچازاد سکینہ کی ناگہانی وفات کے بعد اسکے چہلم پہ سروسز دے رہی ہیں۔ شام ڈھلے کا وقت ہے، ماسی ایصال ثواب کے پکوان بنا کے دے چکنے کے بعد ہم کزنز جو چولہے کے گرد دھری پیڑھیوں پہ براجمان ہیں ،کیلئے  کھانا بنا رہی ہیں اور ساتھ ساتھ بتا رہی ہیں کہ آج تو انکا تھکن سے برا حال ہے کھانے میں ماسی نے ہمیں جو آلو گوشت کا سالن بنا کے دیا اسکا ذائقہ  لاجواب تھا شاید ویسا آلو گوشت میں نے پوری زندگی دوبارہ کبھی نہیں کھایا، ساتھ میں دیسی گھی میں بناسوجی کا حلوہ.کیا کمال کا کمبی نیشن تھا،ماسی توے سے گرما گرم پتلے پتلے خستہ پھلکے اتارتی جارہی تھی اور ہم ندیدوں کی طرح ٹوٹے پڑرہے  تھے۔

چاچا کریم کی گدھا گاڑی کی سواری بچپن کی یادوں میں سے ایک خوبصورت ترین اور ایڈونچرس یاد ہے،چاچا کی گدھا گاڑی کی سواری کا شرف مجھے پوری زندگی میں ایک ہی دفعہ حاصل ہوا ہے۔ نہر کنارے شام ڈھلے چاچاکی گدھا گاڑی میں پاؤں لٹکا کے پیروں سے دھول اڑانا اور چاچا کی دھمکیاں کہ  باز آ جاؤ  ورنہ تمہارے ابا کو شکایت لگاؤں گا، مگر پرواہ کسے تھی، ہنوز میں صائمہ اور امتیاز دھول بھی اڑاتے رہے اور چاچا کی شاندار سواری کی سیر کرتے ہوۓ کھی کھی بھی کرتے رہے،ہاۓ کیا مزے تھے۔

چاچا کی شادی بیاہ کے موقع پر ویل جمع کرتے ہوۓ شاعرانہ صدائیں
ایہہ نوشو گھوٹ دی ویل
ایہہ ویل ویلاں دی ویل
آج بھی کانوں میں گونجتی ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

ایسے اور بھی چاچا کریم اور ماسی جیواں سے منسلکہ لا تعداد یادیں ہیں جو چھم سے ذہن کے دریچے پہ لہراتی ہیں تو بے ساختہ مسکراہٹ لبوں کو چھو جاتی ہے۔
میدو اور امتیاز کی بچپن میں ہونیوالی ایک شاندار جھڑپ کبھی نہ بھولنے والی یاد ہے، میدو نے اس جھڑپ کے دوران امتیاز کو جو صلواتیں سنائیں  تھیں، وہ امتیاز کے بچپن کی تاریخ کا شاندار حصہ ہے 😂😂 جو اسے آج بھی چڑانے کے کام آتی ہیں۔
کیسا سادہ اور بھر پور بچپن تھا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply