تقلید کی ایک علمی فضیلت/زاہد مغل

“تقلید” کے متعدد علمی فوائد ہیں۔ ان میں ایک پہلو یہ ہے کہ آپ کو نئے سرے سے تمام سوالات کا جواب سوچنے کا بوجھ اپنے سر نہیں لینا ہوتا بلکہ پہلے سے چلی آنے والی روایت کی ذہانت نے درجنوں سوالات کو مربوط کرکے جو ایک فکری نظام وضع کیا ہوتا ہے، وہ آپ کی درجنوں مشکلات کو آسان کردیتا ہے۔ ورنہ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تقلید کو کلی طور پر رد کرکے آپ فوری طور پر متوجہ کسی مسئلے کا حل یقیناً نکال لیتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ بعض پہلوؤں سے وہ میسر حل سے اچھا بھی ہو، تاہم جب اس خاص مسئلے کے سواء دیگر پہلووں اور مسائل کا جواب حاصل کرنے کے لئے اس اصول کا سہارا لینے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے وہ خاص مسئلہ حل ہوگیا، تب طرح طرح کے مسائل سامنے آتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ جس اصول کی بنیاد پر خاص مسئلہ حل ہوا تھا، دیگر مسائل کے جواب میں وہ جوں کا توں چل نہیں سکتا اور یا پھر کلی طور پر اس اصول ہی کو کمپرومائز کرنا پڑے گا۔

اس خاص اصول کے ماننے والوں کی اگلی نسلیں پھر ان نئے سوالات کو حل کرکے مجموعی نظام کو ہم آہنگ بناتی ہیں، تاہم جب چند نسلوں بعد پیچھے مڑ کر دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ بات اتنی سادہ نہیں رہی جتنی ابتداء میں سمجھی گئی تھی، نیز مخالف کی اور ہماری بات میں فرق بھی اتنا شدید نہیں رہا جتنا پہلے قرار دیا گیا تھا۔ چنانچہ اس مجموعی ہم آہنگی کا حصول ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے اور یہ جو کلامی، اصولی و فقہی روایات ہمارے سامنے موجود ہیں، یہ ان مراحل سے گزر کر یہاں پہنچی ہیں۔ لیکن جب کوئی شخص ان سب روایات کو رد کرکے اپنا الگ نظام فکر بنانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ مجموعی طور پر چند متفرق و پراگندہ خیالات کو چھوڑ جانے کے سواء اور کچھ نہیں کرتا اگرچہ بعض فوری متوجہ مسائل کا جاذب نظر و دلکش حل پیش کردیا گیا ہو۔ ہاں، اگر اسے اپنے بعد مخلص و ذہین طلباء کا جم غفیر تسلسل کے ساتھ میسر آجائے تو الگ بات ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہی وجہ ہے کہ پچھلے ایک عرصے میں تقلید کو رد کرنے والے ایک کے بعد دوسرے محقق سامنے آتے رہے ہیں مگر وہ کوئی مجموعی نظام فکر پیش نہیں کرپائے اور آج جب ہم ان کی کتب کی جانب رجوع کرتے ہیں تو یقیناً بعض مسائل کا ان کے پاس اچھا جواب ہوتا ہے، مگر سیکنڑوں  ہزاروں فکری و عملی سوالات سے انہوں نے کوئی تعرض ہی نہیں کیا ہوتا اور جب وہاں ان کے اصولوں سے راہنمائی تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو بہت جلد بند گلی آجاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب پہلووں کا جواب سوچنا کسی ایک بندے کے بس کی بات ہی نہیں ہوتی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply