شہباز شریف بمقابلہ منصور علی خان/محمد وقاص رشید

شہباز شریف صاحب کا منصور علی خان صاحب کے ساتھ انٹرویو دیکھا۔ یقین کیجیے ابھی تک ایک سحر میں مبتلا ہوں ایک عجیب جزب کی کیفیت ہے۔ دل پسیجا ہوا ہے ، آنکھیں اشکبار اور روح۔۔۔بس پروین شاکر مرحومہ یاد آئیں۔۔۔”روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی”۔

اب تک صرف سنا تھا کہ “شہباز تیری پرواز سے جلتا ہے زمانہ ” اب مجھے مکمل احساس ہو گیا کہ شہباز شریف صاحب کی پرواز سے زمانہ کیوں جلتا ہے۔ اور اس انٹرویو پر شہباز شریف صاحب جب تیزی سے کبھی انگریزی میں بات کرتے ہوئے چوتھی باری وزیراعظم بننے والے محترم بڑے میاں صاحب کے پلیلیٹس کو پلیٹس کہہ جاتے کبھی عمران ریاض صاحب کے لیے کینیا فون کا حوالہ دیتے تو مجھ پر یہ راز بھی افشاء ہو  تا  رہا کہ چائنہ والے میاں صاحب کو شہباز سپیڈ کیوں کہتے ہیں۔

میاں صاحب نے گفتگو کا آغاز  ہی 2018 کے انتخابات میں پولیٹیکل انجینئرنگ کرنے والوں کے نام نہ لینے پر منصور صاحب کے اعتراض کہ “آپ یہاں آ کر ٹھہر جاتے ہیں ” پر یہ کہہ کر کیا کہ میں ٹھہرتا نہیں توقف کرتا ہوں وگرنہ پھر بات دور تلک نکل جاتی ہے۔

کہاں ملیں گے ایسے انمول رتن ایسے شاہکار لیڈر یہ ہوتا ہے قوم کے بچوں کا درد کہ جن کی خدمت میں دن رات ایک کرتے ہوئے صبح سویرے اٹھ اٹھ کر لمبے لمبے بوٹ پہن کر لاہور کی سڑکوں سے بارش کا پانی خود نکالتے پاکستان کے سب سے اچھے ایڈمنسٹریٹر کو کبھی اتنی مہلت نہ ملی کہ  اپنے بچوں کے لیے وقت نکال پاتے کبھی ان سے پوچھتے کہ انکے پاس کتنی دولت ہے انکے کاروبار کیا ہیں ؟۔

چھوٹے میاں صاحب کے کیا ہی کہنے ،یقین کیجیے الفاظ نہیں ملتے خواجہ آصف صاحب جیسوں کے بیان کہ بڑے میاں صاحب کو باجوہ صاحب نے باہر بھیجا انکی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں عمران خان صاحب نے باہر بھیجا تھا اور رہا سوال کہ وہ حلفیہ بیان کے مطابق واپس کیوں نہیں آئے تو “ڈاکٹر صاحب” نے انہیں صرف پاکستان کے سفر سے منع کر رکھا تھا، یورپ اور دبئی وہ علاج کے لیے سفر کرتے رہے اور پاکستان تب آئے جب “ڈاکٹر صاحب ” نے انہیں اجازت دی۔ (اب یہ بھی میں بتاؤں کہ ڈاکٹر صاحب کون ہیں )۔

یار منصور علی خان صاحب آپ بھی کمال کرتے ہیں جو بندہ خود کو خادمِ اعلیٰ  کہلواتا ہے قوم کی خدمت میں اتنا مگن ہے کہ اسے اپنے بچوں کے کاروبار کا نہیں پتا وہ اب اپنے بھتیجوں سے جا کر پوچھے کہ بھئی آپ دوہری شہریت رکھتے ہیں یا نہیں اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کس کے ہیں ؟ آگے منصور صاحب کہتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ جس بات پر پچھلے پانچ سال سے پوری دنیا کا میڈیا آپکی فیملی پر سپاٹ لائٹ کیے ہوئے ہے آپکو اب تک نہیں پتا کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کس کے ہیں تو انہوں نے انگریزی میں کہا Why should I poke my nose ? بالکل درست بات ہے۔ منصور علی خان صاحب آپکو کیا پتا آج کل کے بھتیجے کہاں سنتے ہیں چچا میاں کی۔ جب پانامہ کیس کے دوران داڑھی رکھ کے حسین نواز نے کہہ دیا کہ یہ اپارٹمنٹس میری ہمشیرہ کے ہیں تو چچا میاں اب اس میں اردو میں ٹانگ اور انگریزی میں ناک کیوں اڑائیں۔ آپ کو نہیں پتا شریکا بازی پڑ جاتی ہے۔

یار کمال خدا کی قسم کمالِ باکمال ۔ منصور علی خان صاحب نے بڑی کوشش کی کہ وہ میاں صاحب کو کہیں پھانس لیں لیکن بھائی آگے بھی تھے شہباز سپیڈ۔۔۔نہ ایداں نہیں۔

چھوٹے میاں صاحب نے توشہ خانہ کے سوال پر تبصرہ کرتے ہوئے بہت خوب صورت بات کی کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے خانہ کعبہ والی گھڑی لے کر بازار میں فروخت کر دی اس لیے وہ چور ہے مجرم ہے۔ منصور صاحب نے پوچھا کہ بڑے میاں صاحب نے مرسڈیز کیوں لی جبکہ قانون کے مطابق آپ توشہ خانہ سے کوئی بھی نوادرات اور گاڑیاں نہیں لے سکتے تو چھوٹے میاں صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں ایک انگلی کھڑی کر کے کہا کہ اگر ایسا ہے تو قانون اپنا راستہ خود لے گا۔ ویسے اس کا جواب یہ ہو سکتا تھا کہ اس گاڑی پر خانہ کعبہ کا ماڈل نہیں تھا اس لیے۔ بہرحال اگر 1992 میں بی ایم ڈبلیو 2005 میں محض چھے لاکھ کی خریدنے پر قانون اپنا راستہ نہیں لے رہا اور 2020 کی ایک گھڑی پر لے چکا ہے تو قانون جانے اور اسکا راستہ، شہباز شریف صاحب کا اس میں کیا دوش۔

ویسے یہی سوال جب محترمہ مریم نواز سے کیا گیا تھا تو انہوں نے پہلے کہا تھا گاڑی قانون کے مطابق لی اور جب منصور نے قانون پڑھ کر سنایا تو انہوں نے فرمایا تھا کہ میرے علم میں ایسی کوئی گاڑی نہیں ،میں چیک کر کے بتاؤں گی۔ ویسے ابھی تک انہوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ “لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی پراپرٹی ہے یا نہیں “۔

ایک اور سوال کے جواب پر فرطِ جذبات سے میرا ہاسا نکل گیا کیونکہ مزید رونا میں چاہتا نہیں تھا۔ میاں صاحب سے منصور صاحب نے پوچھا آپکے پارٹی الیکشن بھی تو ایک مذاق سے زیادہ نہیں تو میاں صاحب نے مکمل اوور کانفیڈنس سے کہا ہمارے پارٹی الیکشنز تو سیٹلائیٹ سے نہیں بلکہ لائیو دکھائے گئے تھے۔

یہ ہوتا ہے ایک حقیقی عوامی نمائندہ ایک عظیم قومی رہنما جب بھی سوال ہوتا میاں صاحب سے انکی اور انکے بیٹوں کی دولت کا تو ماضی میں خود کو ایک غریب کسان کا بیٹا کہنے والے محترم خادمِ اعلیٰ  اس سے لاعلمی کا اظہار کرتے کبھی Hard Talk والے اسحاق ڈار صاحب کی طرح کہتے Everything is declared۔  اپنے مخالف کی گھڑی اور اسکی ہمشیرہ کی جائیداد کی بات کرتے یہاں تک کہ منصور علی خان صاحب کو کہنا پڑا کہ میں تو عمران خان کا ناقد ہوں ۔اس وقت میں مسلم لیگ کے صدر سے بات کر رہا ہوں۔ لیکن میاں صاحب نے انگلی کھڑی کر کے کہا ،نہیں آپ ان سے سوال نہیں کرتے ،حالانکہ بے چارے منصور علی خان صاحب پی ٹی آئی ٹرولرز عرف لونڈوں لپاڑوں (بقول منصور ) سے “منصور فرجاں والا” کہلواتے تھے۔

منصور علی خان صاحب نے بلاول بھٹو زرداری کے عمران خان عدت کیس پر مذمت کا حوالہ دے کر بھی میاں صاحب سے اسکے خلاف الفاظ نکلوانے کی کوشش کی، لیکن وہ میاں صاحب جو عدالتوں کے اپنے خلاف جھوٹے کیسز پر فیصلوں کا رونا رو رہے تھے کہنے لگے جج سے جا کر پوچھو۔

میاں صاحب نے حمزہ شہباز ، سلمان شہباز ، حسن حسین نواز شریف کی دوہری شہریت سے لے کر ایون فیلڈ اپارٹمنٹس تک تمام سوالوں کے علیمہ خان کی سلائی مشین ، خانہ کعبہ کے ماڈل کی گھڑی ، بنی گالہ کی زمین اور این سی اے 180 ملین پاؤنڈ سے  بہترین جوابات دیتے ہوئے آخر پہ اپنا ما فی الضمیر کھل کر بیان کر دیا، جب کہا کہ میں تو سوچ رہا تھا کہ آپ یہ پوچھیں گے کہ  عمران نیازی کے برباد کردہ ملک کو کیسے ٹھیک کرنا ہے، آپ irrelevant سوالات کرتے رہے۔ بالکل درست بات ہے منصور صاحب اتنے غیر متعلقہ سوال۔ ۔بہت بری بات!

ایک اور بریکنگ نیوز بھی چھوٹے میاں صاحب نے اس انٹرویو میں دی کہ انکے وزیراعظم ہوتے ہوئے پوری مسلم لیگ نون میں وزیراعلیٰ  پنجاب کے لیے میرٹ پر صرف ایک صاحب تھے اور وہ تھے جناب حمزہ شہباز صاحب۔ جی جی وہی جن کی دولت کا میاں صاحب سے کوئی لینا دینا نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک اور بات جو چھوٹے میاں صاحب کو پاکستان کے ہی نہیں دنیا جہان کے تمام رہنماؤں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ میاں صاحب اپنے مخاطب بندے کو بار بار کہہ رہے ہوتے ہیں “میری بات سن لیں ، منصور نے دو تین بار کہا کہ میاں صاحب میں سن رہا ہوں۔ ایک بار یہ بھی کہا کہ میاں صاحب میں سٹیٹس بھی نہ دیکھوں۔ آخر کہنے لگے میاں صاحب میں انٹرویو کے بعد پانچ منٹ آپکی جانب دیکھتا رہوں گا اور آخر پہ سلام و خداحافظ کہتے کہنے لگے دیکھیں میاں صاحب میں اب آپکی طرف دیکھ رہا ہوں۔ ہی ہی ہی ہی  ۔۔بہت دنوں سے کچھ مزاحیہ نہیں دیکھا تھا دل خوش کر دیا  ۔آپ بھی یہ انٹرویو ضرور دیکھیے گا شہباز دھوکہ نہیں دے گا ۔۔شیر اک واری فیر!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply