تاریخ کیوں پڑھی جائے؟-یاسر جواد

کچھ دوستوں نے سوال کیا اور پوچھا ہے کہ تاریخ پڑھنے سے کیا حاصل؟ اگر کوئی مزدور یا کلرک یا جسمانی محنت کرنے والا شخص تہذیب اور تاریخ یا تہذیب کی کہانی پڑھے تو اِس سے اُس کو کیا فائدہ ہو گا؟ یا اُس کی زندگی میں کیا بہتری آئے گی۔ یہ بہت سنجیدہ اور اہم سوال ہے۔ اور اِس کا کوئی رومانوی انداز میں جواب کافی نہیں۔

اگر آپ غور کریں کہ ذہانت کیا ہے؟ تو کافی کچھ سمجھ آ جائے گا۔ ذہانت نیلام گھر میں سوالات کے جواب دینا یا سب رس کے مصنف کا نام یا میر کے دیوان کا سن اشاعت یا علامہ اقبال کی پیدائش کا سن بتانا نہیں ہے۔ ذہانت پیٹرنز (patterns) بنانے کا نام ہے۔ پاگل یا شیزوفرینیا (سکٹزوفرینیا) کا شکار شخص چیزوں کا ربط نہیں جوڑ سکتا۔ وہ چیزوں کے سبب اور نتیجے کے درمیان تعلق نہیں جانتا، اور نہ ہی اپنے اگلے فعل میں اُس تعلق کے بارے میں معلومات کو کام میں لا سکتا ہے۔ ذہانت کے ذریعے ہم تجربے اور خطا سے سیکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے سیکھے ہوئے اسباق سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔
یہ ذہانت دنیا کے متعلق ہمارے نظریے کو بھی تشکیل دیتی ہے۔ اگر ہم تاریخ کی مختلف قوتوں، عوامل اور محرکات کو سمجھ جائیں تو ہم میں غیض و غضب کی شدت کم ہو جاتی ہے، ہم محض سازشی تھیوریز پر یقین نہیں رکھتے، ہم انسانوں کے معاملات کو غیر انسانی تناظر میں نہیں دیکھتے۔

تاریخی علم کی بدولت ہم ماضی کی روشنی میں حال کو پرکھتے ہیں اور مستقبل کی راہِ عمل پر سوچ بچار کرتے ہیں۔ اِس کی بدولت ہمیں وہ نقوش یا patterns ملتے ہیں جن کی بنیاد پر ہم اپنی ذہانت کی عمارت تعمیر کر سکتے ہیں۔ انفرادی سطح پر ایسا ہر وقت کرتے رہتے ہیں۔ ہم سبھی لوگ اپنے بچپن کے متعلق اپنے بچوں کو بتاتے ہیں یا اپنے والدین سے اُن کی زندگی کی کہانی سنتے ہیں۔ دراصل ہم patterns ہی سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ کوئی روٹی پکانا یا ہتھوڑا چلانا بھی سیکھتا ہے۔ جانور اس صلاحیت سے محروم ہیں یا یوں کہہ لیں کہ جانوروں کی ذہانت کا مشاہدہ انسانوں سے مختلف ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ چلو ہم نے قدیم روم یا ہندوستان یا یونان کے متعلق جان لیا تو اِس سے کیا فرق پڑ جائے گا؟ مفتوح یا زیردست معاشرے اس فرق کو جاننا چاہتے ہیں تو فاتح دھڑوں کے طریقوں پر غور کریں۔ بات ان میں تبدیلی لانے کی نہیں، اُنھیں سمجھنے کی ہے، بالکل اُسی طرح جیسے آپ رشتے داروں کو سمجھنے کے بعد اُنھیں تبدیل تو نہیں کر سکتے، مگر اُن سے خود کو بچا ضرور سکتے ہیں۔ اور آپ مثلاً شادی کی روایات اور تصورات کو بدل تو نہیں سکتے، لیکن ایک نیا آغاز لے ہی سکتے ہیں۔ تفہیم اور اُس کی منتقلی ہی ہی انسان کو انسان بناتی ہے۔ ورنہ ہر چیز توہم ہی رہ جاتی ہے۔
آخر کو تو ہم سب کہانیاں ہی ہیں اور ہم سب کہانیوں سے ہی بنے ہیں۔ ہم روزانہ دفتر سے آ کر بیوی کو کوئی نہ کوئی ’’کہانی‘‘ سناتے ہیں۔ کیوں؟ اِس کا جواب تلاش کریں گے تو تہذیب کی کہانی کی اہمیت بھی اجاگر ہو جائے گی!
Patterns بنانے یا نقوش تلاش کرنے کی صلاحیت سے محروم معاشرہ کیسا ہوتا ہے؟ پاکستان ایک اہم مطالعہ ہے۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply