اِس تصویر میں دو محبت کرنے والے ایک درخت کی ڈالیوں تلے مل رہے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ یہ اُن کی پہلی ملاقات ہے یا آخری؟ چہروں پر پایا جانے والا تناؤ اشارہ دیتا ہے← مزید پڑھیے
ذہنی مسائل اور تشویش بیسویں صدی میں انسانوں کی زندگی کا جزو بن کر رہ گئی ہے، خصوصاً شہروں میں۔ ہمارے ذہن چلتے رہتے ہیں، حتیٰ کہ نیند میں بھی۔ ہمیں کہیں پہنچنے، کمانے اور بچوں کو پالنے کی پریشانی← مزید پڑھیے
میڈیا کی نئی سہولیات اور لیڈروں کے سطحی پن کی وجہ سے اب یہ تو سمجھ سے باہر ہے کہ میاں چنوں یا فیصل آباد یا اٹک کا کوئی نون لیگی یا عمرانی کارکن اپنے لیڈر کی تقریر کیوں سننے← مزید پڑھیے
قدیم بت پرستانہ مذاہب اور عقائد میں کارنوال (Carnival) ایک جشن مسرت تھا جس میں ہر طرح کی کھلی جنسی چھوٹ دی جاتی۔ یہ جشن موسموں، فصلوں وغیرہ کے حساب سے منائے جاتے تھے۔ اِس میں سوانگ رچائے جاتے، کھیل← مزید پڑھیے
منیر نیازی صاحب کے دارو کا کما حقہ بندوبست ہو جاتا تو شاید آج دو چار ’’ممتاز‘‘ اور مشہور تمغہ یافتہ شاعر موجود نہ ہوتے جنھیں اُن کے لکھے ہوئے ’’فلیپس‘‘ نے ممتاز کر دیا۔ وہ بس یونہی لکھ دیتے← مزید پڑھیے
1996ء کی بات ہے کہ میں دوستوں کے ساتھ ناران کاغان گیا تو شیو بڑھی ہوئی تھی کیونکہ مہینے میں دو بار ہی کیا کرتا تھا۔ ناران میں جا کر نائی کی دکان پر گیا اور اُسے کہا کہ شیو← مزید پڑھیے
ہم کردار کم اختیار کرتے ہیں، زیادہ تر کردار ہمیں اختیار کرتے ہیں۔ کردار بنے بنائے ہیں، آٹھ نمبر، نو نمبر، دس نمبر کے جوتوں کی طرح۔ جیسا کہ کچھ کردار ہیں بیوہ یا شادی شدہ ادھیڑ عمر عورتوں کے← مزید پڑھیے
کبھی اخبار میں کام کرتا تھا تو خبروں کے بقیہ والے صفحے پر برجوں کے متعلق ایک چوکھٹا لگتا تھا۔ تب برومائیڈ فلم پر پرنٹ نکلتا تھا جسے باریک بٹر پیپر پر الٹا جوڑ کر صفحہ تیار کیا جاتا تھا۔← مزید پڑھیے
ہمارے اخبارات نے بہت سی لسانی دھوکے بازیوں کی بنیاد رکھی ہے۔ اِن میں زیادہ حصّہ دائیں بازو کے موقع پرست ایڈیٹروں اور اخبارات کا خصوصی حصّہ رہا ہے۔ ان میں سے چند دھوکے بازیاں یہ ہیں: قومی سلامتی، نظریاتی← مزید پڑھیے
آپ ماضی کے اُسی دور اور اُسی ماحول میں جا کر بسنا چاہتے ہیں جس میں پہلے نہ رہے ہوں۔ سو بیس تیس سال پہلے کے لاہور کے ناستلجیا میں مبتلا ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ← مزید پڑھیے
زندگی کی ابتدا پانی میں یک خلیہ جانداروں سے ہوئی، لہٰذا مرغی یا انڈہ پہلے پیدا ہونے کا سوال بے معنی ہے۔ اُسی پانی بلکہ کیچڑ میں مچھلیوں کا ارتقا ہوا جن کے مہیپروں میں پانچ پانچ ہڈیاں تھی۔ ماہرین← مزید پڑھیے
غلاظت کے لوکل نام لینے کی بجائے shit کہنا اب رواج ہے، اسی طرح کام والی یا نوکرانی کو maid کہنا بھی عام ہو گیا ہے۔ اِس طرح ہم خود کو نسبتاً زیادہ شائستہ یا انسان دوست ثابت کر رہے← مزید پڑھیے
دنیا میں لکھاریوں کا دن منایا جا رہا ہے۔ پاکستان لکھاریوں کا دن بلکہ زندگی اصل میں پبلشر مناتے ہیں، اور کئی نسلوں تک مناتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں اپنے شعبے کے سوا ہر چیز پر بات کرنے کا رواج← مزید پڑھیے
ہندوستان نے اپنے پنجاب اور جموں کی سرحد پر شاہ پور کنڈھی بیراج بنایا ہے اور پاکستان کے دریائے راوی میں آنے والا پانی بالکل روک دیا گیا ہے۔ اس بیراج کا سنگ بنیاد 30 سال پہلے نرسمہا راؤ نے← مزید پڑھیے
ہمارے معاشرے میں مایوسی کی باتیں کرنا جتنا آسان ہے، اُمید کی باتیں کرنا اُتنا ہی مشکل ہو گیا ہے۔ کئی دوستوں اور پڑھنے والوں نے انباکس میں بھی بارہا اِس کا مطالبہ یا فرمائش کی ہے کہ کچھ جیتنے← مزید پڑھیے
سی جی یُنگ کے مطابق ہمارے اندر قدیم دور سے کچھ گہرے نقوش کھدے ہوئے ہیں جنھیں اُس نے آرکی ٹائپس کا نام دیا۔ ہم اِن نقوش کے مطابق ہی عمل کرتے ہیں، مثلاً تولید اور بچوں کو پالنے کے← مزید پڑھیے
کچھ دوستوں نے سوال کیا اور پوچھا ہے کہ تاریخ پڑھنے سے کیا حاصل؟ اگر کوئی مزدور یا کلرک یا جسمانی محنت کرنے والا شخص تہذیب اور تاریخ یا تہذیب کی کہانی پڑھے تو اِس سے اُس کو کیا فائدہ← مزید پڑھیے
عمرانی عفریت ایک آئیڈیا ہے، وہ ایک بیمار خواب اور نظریاتی بساندھ ہے، وہ ہماری تاریک پرچھائیں ہے جسے ہم نے برسوں پال کر ہر طرف پھیلا دیا ہے۔ یوول نوح ہراری نے اپنی کتاب سیپیئنز میں جو چند ایک← مزید پڑھیے
تین چیزیں ایسی ہیں، جنھیں میں کبھی شروع سے آخر تک پورا نہیں پڑھ پایا۔ ایک ویٹنگ فار گوڈو، دوسری متھ آف سسیفس اور تیسرا فرانز کافکا کا ’’دی کاسل۔‘‘ مؤخر الذکر ناول 1997 میں ترجمہ کرنا شروع کیا اور← مزید پڑھیے
ہم کیوں لکھتے ہیں؟ اِس پر بہت سے بڑے بڑے لوگوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ لیکن لکھنا انسان کے اظہار کی ایک پائیدار صورت ہے۔ اِس کے ذریعے ہم بہت آسانی سے یہ بتا جاتے ہیں کہ ہم بھی← مزید پڑھیے