ماہ رنگ تھک جائے گی/یاسر جواد

جب سرخ معبد والیاں بانس کے ڈنڈے ہاتھ میں لیے سڑک پر نکلتی ہیں تو سب کے سر احترام اور خوف سے جھک جاتے ہیں۔ کوئی غریدہ غرودہ ہمت بھی نہیں کرتی جا کر اُن سے بحث کرنے کی۔ بحث کرنے کا مطلب ہو گا کہ آپ اسلام کی مخالفت کر رہے ہیں۔
لمبے چغے کے اوپر کوٹ پہن کر گھاس کو پامال اور کینیڈا کے خوب صورت مناظر کو مکروہ بناتا ہوا دروغ گو، بھاڑے کا مُلا طاہر القادری جلوس لے کر نکلتا ہے تو لوگ پھول پاشی کرتے ہیں، اور وہ گرین بیلٹس کو پاخانوں کی بارودی سرنگوں سے بھرتا رہتا ہے۔
مولانا فضل کے ڈنڈا بردار، وردی پوش معصوم پیروکار کیسے اسلام آباد کے پارکوں میں جھولے جھولتے رہے ہیں۔ ہم سب نے عمرانی نوٹنکی کے تمام کردار بھی دیکھے ہیں، اور جماعت اسلامی کو قوت فراہم کرنے والے طلبہ کی بدمعاشیاں بھی۔
ریاست ہمیشہ اِن قوتوں کے ساتھ کھڑی رہی ہے۔ بلکہ موقع ملنے پر سامنے لیٹی بھی ہے۔ یہاں ہر کوئی ماہ رنگ بلوچ کو سبق سکھائے جانے یا اُس کے متعلق کو ’’زبردست انکشاف‘‘ ہونے کی امید لگائے بیٹھا ہے۔ کبھی اُس کی آواز رندھ جاتی ہے تو وہ خود کو سنبھال لیتی ہے۔ اُسے تھکایا جا رہا ہے۔ وہ تھک جائے گی۔ وزیر داخلہ نے صاف کہہ دیا کہ کسی عورت پر پولیس نے کوئی تشدد نہیں کیا۔ پاکستانی ذہن تو ابھی حرکت میں آنا شروع ہی ہوا ہے۔ یوتھیوں کا اپنی اپنی نہ پڑی ہوتی تو اصل گند وہ اچھالتے۔
ماہ رنگ نے بہت کچھ achieve کر لیا ہے۔ اب اُسے واپس چلے جانا چاہیے۔ بہت سی لڑائیاں ہماری زندگیوں سے کہیں زیادہ بڑی ہوتی ہیں۔ لیکن شاید جب زندگی ہی بے معنی اور کرب کا شکار ہو جائے تو صرف لڑائی ہی باقی رہ جاتی ہے۔ اگر وہ واپس چلی جائے گی تو تھوڑے بہتر موسم میں، تھوڑی مزید تیاری کے ساتھ، اور بھی کوئی ماہ رنگوں کے ساتھ واپس دوبارہ آئے گی۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply