ایک سبق آموز واقعہ/ناصر خان ناصر

24 دسمبر 1914 ایک خاص دن تھا جب اس دن جنگ عظیم اول کے دوران ایک گولی بھی نہیں چلائی گئی تھی۔ اس دن گویا برطانوی افواج اور بلمقابل جرمن افواج کے درمیان ایک خاموش سا ان کہا معاہدہ ہو گیا تھا کہ کرسمس کے احترام میں کسی سائیڈ نے بھی ایک گولی تک نہیں چلانی۔ مخالف افواج اس دن ایک دوسرے کے ساتھ فٹ بال کھیلتے رہے اور مل کر مشروبات لنڈھاتے، خوش گپیوں کرتے، آپس میں تحفے تحائف کا تبادلہ کرتے رہے۔ کرسمس کی شام کو مل کر کرسمس کریل carols گائے جاتے رہے۔ دونوں اطراف کے لوگ نو مین زون میں آ کر اپنے اپنے زخمی اور مرنے والوں کی لاشیں بھی پرسکون طریقے سے اٹھاتے رہے۔ اس جنگ کی سرحد فرانس سے لے کر بیلجیم اور سوئیٹزرلینڈ تک تقریبا چھ سو میل دور تک پھیلی ہوئی تھی اور محاز پر تقریبا ًہر جگہ یہی حال رہا۔ ابھی جنگ عظیم اول شروع ہوئے صرف پانچ مہینے ہی گزرے تھے۔

کرسمس کی یہ عارضی صلح تھی جس کی منظوری دونوں اطراف کی ہائی کمانڈز سے نہیں لی گئی تھی۔ دونوں اطراف کے نوجوانوں نے یہ اچھی بات خود ہی سوچی اور کسی سے پوچھے بنا اس پر عمل بھی کر ڈالا۔ یہ اچھی بات جنگل کی آگ کی طرح خود بخود پھیلتی چلی گئی۔ ہر سننے والے نے خود بخود اس مثبت عمل کا احترام کیا۔

1915 میں دونوں مخالف کیمپوں نے پھر ایسی صلح کے خلاف قوانین واضع کیے اور 1916 تک جنگ کی بربریت اور خون ریزی میں بے پناہ شدت آ چکی تھی۔ اس جنگ میں اگرچہ 25 ملین سے زائد لوگ مارے گئے تھے۔ ان باہمت نوجوانوں کی کہانی یاد رکھنے کی ضرورت ہے جنہوں نے خواہ عارضی ہی سہی مگر صلح کا صحیح راستہ چنا تھا۔

کاش پاکستان اور بھارت کی نوجوان نسل میں بھی کوئی ایسے بہادر ہمت والے محب الوطن لوگ آگے آئیں جو دونوں ممالک کی برابری کی سطح پر صلح اور جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کروا سکیں۔
دونوں ممالک میں دس پندرہ یا بیس برس کا جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہو۔

دونوں ممالک کی افواج کی تعداد میں خاطر خواہ کمی کی جائے۔ اسلحہ، بموں، ٹینکوں اور رائفلوں کی تعداد میں بھی کمی کی جائے۔
دونوں ممالک ایٹمی ہتھیار نہ چلانے کا وعدہ کریں۔ جنگی جنون، مقابلے کی سیاست کو ختم کیا جائے۔
نفرت کی جگہ باہمی محبت، اچھی ہمسائیگی، اخوت، اخلاص اور رواداری کو فروغ دے کر ہم لوگ امریکہ اور کینیڈا کی طرح بن سکتے ہیں۔
دونوں ممالک کی افواج کا بجٹ کم کر کے یہ رقم تعلیم، صحت، انفرا اسٹکچرز اور تجارت کو مستحکم کرنے پر خرچ کی جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دونوں ممالک ایک دوسرے کو پسندیدہ ترین دوست ملک قرار دے کر اپنی ہی کرنسی میں باہمی تجارت کریں۔ ان اقدام سے دونوں ممالک کی کرنسی کی ویلیو بھی بڑھے گی۔
دونوں ممالک کے عوام کے لیے سرحدوں کو کھول دیا جائے۔ دوستانہ وفود کے تبادلے سے دوستی کی فضا کو مزید ہموار کیا جائے۔
کشمیر کے مسئلے کو کچھ عرصے کے لیے سرد خانے میں ڈال کر اس کے بعد باہمی رضامندی سے حل کیا جائے۔
ملک دشمن عناصر اور اس دوستی کو ٹھیس پہنچانے والے افراد کو سخت سزائیں دی جائیں۔
کاش ہمارے خطہ اراضی میں بھی دائمی امن قائم ہو سکے۔ امن اور ترقی کے لیے اس قسم کی کوششیں کرنا وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply