تہذیب کے چور/شہزاد عرفان

بدھ ادوار کا تمام آثار قدیمہ سب سے زیادہ خیبر پختون خواہ میں مدفون ہے اور یا پھر سرائیکی وسیب میں ۔ سرائیکی وسیب کے بہاولپور اور ملتان میوزم کے قیمتی نوادارت جنکی بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمت لاکھوں ڈالرز بنتی ہے بے رحمی سے پنجاب کے نام پر لاہور آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ منتقل کیا گیا یا پھر بہاولپور ملتان جو بھی طاقتور درجہ بدرجہ سول یا ملٹری آفیسر آیا اس نے یا تو اسے چوری کروایا اور اس کا الزام مقامی درجہ چہارم کے غریب ملازمین پردھردیا یا پھر اسکی جگہ ہو بہو ویسے تیارکردہ ریپلیکا بنوا کر رکھے اور اصل غائب کروایا دیا گیا۔ اسی طرح پشتون خواہ اور اسکے نواح سے برآمد نوادرات بشمول بدھا کے قیمتی شسٹ سٹون سے تیار کردہ تاریخی مجسموں کو مقامی مافیا سے نکلوا نے اور انکی ریپلیکاز تیار کرکے سرکاری ریکارڈ کی خانہ پُری کے بعد انہیں لاہور کے پنجاب میوزیم میں رکھوایا گیا ۔ اور تو اور جہاد فی سبیل اللہ کے زمانے میں افغانستان کے تمام میوزم سے آثار قدیمہ نوادرات کی چوری پاکستان کے لاہور آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں آکر بکتا رہا سرکاری اناگریشن کمیٹیٹوں نے اس چوری شدہ مال کو سرکاری طور پر خریدتی رہی کیوں کہ پاکستان اس وقت امریکی ڈالڑز پر جہاد کا چیمپیئن تھا سادہ لوح قبائیلی مزاج افغانیوں کو جہاد اور اسلام کا کوکین پلاکر ان کا قتل عام کرایا جارہا تھا ان جہادی افغانوں کا اسلحہ اور منشیات کے علاوہ دوسرا سب سے بڑا کاروبار نوادارت کی پاکستان میں سمگلنگ اور وہاں سے عالمی مارکیٹ میں نوادارات کی ترسیل تھی جو جہاد فی سبیل اللہ کا مادی ایندھن یعنی ڈالرز فراہم کرتا تھا اور یہ سب کام پاکستانی جرینیلی طاقت کے زیر سایہ چلتا رہا تھا۔ موجودہ جہادی طالبان حکومت سے پہلے افغان حکومت نے عالمی عدالت میں اس مسئلے کو بار بار اٹھایا تھا جس پر برطانیہ نے اس کی بھرپور حمایت کی تھی کے پاکستان کو افغانستان کے طالبان دور میں سمگلروں سے خریدی گئی نوادرات کو افغانستان واپس کرنے کا مطالبہ کیا گیا جسے پاکستان نے رد کردیا تھا مگر یہ سب روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔ سرائیکی وسیب کا تخت لہور اور پنجاب سے مطالبہ ہے کہ چولستان اور تھل میں آرکیالوجیکل سائٹس کی خسرہ گرداوری بند کرکے انکی زرعی الاٹمنٹس بند کی جائے اور اب تک جو بھی نوادرات سرائیکی وسیب سے نکلے ہیں انہیں واپس ملتان بہاولپور ڈی جی خان اور لیہ کے مقامی ڈسٹرکٹ اور ڈویژن کے محکمہ آثار قدیمہ کے وفاقی اور صوبائی یونٹوں کے حوالے کئے جائیں تاکہ علاقے کی تہذیب و ثقافت کو ہماری نئی نسل جان پہچان سکے پنجاب بڑا بھائی کے نام پر اب مزید کسی بدمعاشی کو پاکستان کا سرائیکی سندھی بلوچ پشتون گلگتی کشمیری اور اردو برداشت نہیں کرے گا۔ ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply