کتوں والے تجربات اور بجلی۔۔حسان عالمگیر عباسی

بی ہیورسٹوں (behaviorism) نے اپنی منجی ٹھوکنے اور مدعا سمجھانے کے لیے کتے کی مثال لائی ہے یعنی ایک کتے کا رویہ ایسا بناؤ کہ وہ عادت سے مجبور ہو جائے۔ دوسرے موتیوں (الفاظ) میں اگر کتے کو بتایا جائے کہ بیل ملب گھنٹی کی ‘تو تراں’ کا مطلب گوشت پوست ہڈیاں ہیں تو وہ آجائے گا لیکن وہ تب تک آئے گا جب تک اس کی پیٹ پوجا بیل سے منسوب رہے گی۔ جب ہڈی نہیں رہی تو دو بار ضرور دھوکا کھائے گا پھر وہ بھی سمجھ جائے گا مالک چیست کر رہا ہے اور یوں اس کی نئی عادت بن جائے گی۔

سمجھ نہیں آئی؟

انسانوں کی مثال لے لیں۔ حضرت انسان من الباکستان کے ساتھ ایسے ہی کتوں والے تجربات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے زمانے میں بجلی یہ آئی وہ گئی والا سین تھا اور ہم اس کے عادی تھے اور شاید خوش بھی تھے یا خوش نہ بھی ہوں ایک عقیدت مند شخص کی طرح یزیدیوں کو نہیں، تقدیر اور قسمت کو کوستے تھے کیونکہ عقیدت نام ہی پُتلا گری کا ہے۔ پھر کچھ ایسا ہوا کہ روشنیاں آ گئیں۔ اب ہم اس کے عادی ہو گئے۔ شاید سال بھر میں دو دفعہ بھی بجلی نے بے وفائی نہ کی ہو۔ پچھلی عادت بری عادت تھی لیکن یہ اچھی عادت تھی۔ خیال نہیں آیا تو کتوں والے تجربات جاری رکھتے ہوئے ماضی کی یاد دلانے کا نیا آغاز ہوا ہے۔

اب یقین کریں مندرجہ ذیل صورتحال ہے:

Advertisements
julia rana solicitors london

“اتنی پیاری لوڈ شیڈنگ چل رہی ہوتی ہے, درمیان میں اچانک بجلی آ جاتی ہے۔”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply