پیپلز پارٹی کا عوامی مارچ۔۔میر حسیب گورگیج

اگر آپ ایک سیاسی ورکر ہیں، تو یقیناً آپ سے عام شہریوں نے ضرور پوچھا ہوگا کہ اس حکومت کے خلاف آپکی جماعت کب آواز اٹھائے گی، کب اس حکومت سے عوام کی جان چھوٹے گی ؟
پچھلے ڈیڑھ  دو سالوں سے پیپلز پارٹی مسلسل مہنگائی ، بیروزگاری ، گیس لوڈ شیڈنگ ، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کررہی ہے۔
اسٹیل مل و دیگر وفاقی اداروں کے جبری برطرف کیے گئے ملازمین کے حق میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کئی مظاہرے کیے ۔

پیپلز پارٹی نے ملکی تاریخ میں پہلی بار کسانوں کے ساتھ مل کر ملک بھر  میں وفاقی حکومت کے خلاف ٹریکٹر ٹرالی کسان مارچ کیا ۔

پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ و وفاقی حکومت کی جانب سے انکروچمنٹ کے نام پر کراچی کے ہزاروں گھروں کو مسمار کرنے کے خلاف نا صرف آواز اٹھائی بلکہ اس وقت کے وزیر بلدیات سعید غنی نے اعلان کیا کہ اگر کورٹ مجھے نااہل کرتی ہے تو کرلے لیکن میں کسی غریب کے سر سے ان کی  چھت نہیں چھین سکتا ،یہی وجہ ہے کہ آج مارٹن کوارٹر ، جمشید کوارٹر ، پاکستان کوارٹرز سمیت مختلف کوارٹرز کے رہائشی سکون سے اپنے گھروں میں رہ رہے ہیں ۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی حکومت کی غیر آئینی ، عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف ہر فورم پر آواز بلند کی ہے ۔
کئی سال تک عوام کو متحرک کرنے  کے بعد اب چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے 27 فروری  کو وفاقی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے ۔ لانگ مارچ کے اعلان کے بعد سے ملک بھر میں بالخصوص شہر کراچی میں عوام کے اندر ایک نئی اُمید جاگ اٹھی ہے کہ پیپلز پارٹی کے اس لانگ مارچ سے وفاقی حکومت عوام کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجائے گی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس وقت کراچی سمیت ملک بھر کے کئی علاقوں میں پیپلز پارٹی کی جانب سے لانگ مارچ موبیلائزیشن کے حوالے سے کیمپ لگائے گئے ہیں، ریلیاں نکالی جارہی ہیں، عوام میں پمفلٹ تقسیم کیے جارہے ہیں شہر کراچی کو پیپلز پارٹی کے جیالوں نے   پینافلیکس اور جھنڈوں سے بھر دیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے جیالوں میں جوش و خروش عروج پر ہے ۔
یقیناً وفاقی حکومت پیپلز پارٹی کے اس عوامی مارچ کا مقابلہ نہیں کرسکے گی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply