زندگی کی ابتدا پانی میں یک خلیہ جانداروں سے ہوئی، لہٰذا مرغی یا انڈہ پہلے پیدا ہونے کا سوال بے معنی ہے۔ اُسی پانی بلکہ کیچڑ میں مچھلیوں کا ارتقا ہوا جن کے مہیپروں میں پانچ پانچ ہڈیاں تھی۔ ماہرین ارتقا کے مطابق بہت سے مراحل کے نتیجے میں لینگور، لیمور اور چمپینزی بنے جو ایتھوپیا کے جنگلوں میں درختوں پر مقیم تھے۔ کسی شہابِ ثاقب نے جنگل جلا دیے اور شاید ڈائنوسارز کا خاتمہ بھی کر دیا تو وہ درختوں سے اُترنے پر مجبور ہوئے، اُن کے دو ہاتھ فارغ ہو گئے، قامت سیدھی ہوئی، ہاتھ استعمال کرنے پر انگوٹھا ہر انگلی کے سِرے کو چھونے کے قابل ہو گیا جو دماغ کی تیزی سے ترقی کا باعث بنا۔ درختوں سے اُترنے کے نتیجے میں مادہ انسان بھی ریپ ہونے کی معذوری کا شکار ہو گئی جس کی وجہ مشنری پوزیشن تھی۔ اِسی مشنری پوزیشن نے جسم کے سامنے والے حصے کو اہم بنا دیا۔ فطری انتخاب کے بعد جنسی انتخاب نے سینے کو نمایاں کیا، پستان باوقعت قرار پائے، چہرے کے بال کم ہونے لگے۔
مہیپر میں پانچ ہڈیوں والی مچھلی کی وجہ سے ہی ہماری دس انگلیاں ہیں۔ کارل ساگان کے مطابق یہی دس انگلیاں ہمارے اعشاری نظام کی بنیاد بنیں۔ اگر ہماری کل اٹھارہ انگلیاں ہوتیں تو شاید سارا ریاضی مختلف ہوتا۔ چند ہزار سال قبل شکار کے دور میں عورتوں نے شکار پر گئے ہوئے مردوں کے دنوں یا حمل اور حیض کا حساب چاند کے مطابق رکھنا شروع کیا۔ مہینے کے تیس دن، 360 دن کا ایک سال۔ لہٰذا دائرے کی بھی 360 ڈگریز۔ فیثاغورث نے دائرے کو تکمیل کی علامت قرار دیا، زمین بھی 360 قمری دنوں میں سورج کے گرد ایک چکر مکمل کرتی تھی، موسموں کا نغمہ ایک خاص ترتیب سے بجتا تھا۔
کوئی تین ہزار سال پہلے لوہے کی دریافت یا ایجاد نے ہل کو زیادہ گہرائی تک جانے والا بنایا اور زرعی انقلاب آیا۔ شکار کرنے کی ضرورت نہ رہی۔ خاندان کے لیے وافر خوراک سنبھال کر رکھنا ممکن ہو گیا جسے لوٹنے کے لیے گھوڑا کام آیا۔ اگلے دو ہزار سال میں تیمور اور چنگیز کے عہد تک گھوڑا ہی برتری کی علامت رہا۔ ہسپانوی اپنے ساتھ گھوڑے لے کر امریکہ گئے اور امریکی موویز نے گھوڑے کو وہاں کے ریڈ انڈینز کے ساتھ منسوب کر دیا، حالانکہ وہ گھوڑے سے آشنا ہی نہ تھے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں