خوب صورتی اور اُداسی/یاسر جواد

تین چیزیں ایسی ہیں، جنھیں میں کبھی شروع سے آخر تک پورا نہیں پڑھ پایا۔ ایک ویٹنگ فار گوڈو، دوسری متھ آف سسیفس اور تیسرا فرانز کافکا کا ’’دی کاسل۔‘‘ مؤخر الذکر ناول 1997 میں ترجمہ کرنا شروع کیا اور آخری پچاس صفحات باقی تھے تو چھوڑ دیا۔ پچھلے سال دوبارہ سے ترجمہ شروع کیا اور اب پھر پچاس صفحات رہتے ہیں۔

ویٹنگ فار گوڈو بھی اولڈ مَین اینڈ دی سی (بوڑھا اور سمندر) جیسا شاہکار ہے اور دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ میں پیدا ہونے والی بے وقعتی کے احساس سے لبریز ہے۔ لیکن زیادہ تر حسین چیز اُداس ہی ہوتی ہیں۔ ایک نظم میں منیر نیازی نے کسی حسینہ کو بیان کیا اور آخر میں کہا کہ وہ وہاں سے گزری اور سب اچھے بھلے بیٹھے لوگوں کو سوگوار کر گئی۔

ہم سب کو ایک طرح سے فانی پن کا دکھ ہے۔ لیکن اگر فانی پن دور ہو جائے، یعنی ہم اور آپ لافانی ہو جائیں تو کریں گے کیا؟ کیا ہم دو سو پچیس یا چار سو پچانوے سال کی عمر میں بھی فیس بک پوسٹس یا اس جیسی کوئی حرکت کر رہے ہوں گے؟ سیلفیاں اور ڈھیروں تصاویر لیں گے جنھیں دوبارہ کبھی نہیں دیکھیں گے؟ پاس بیٹھے ہوؤں سے بچ کر دور موجود لوگوں تک کسی جادوئی انداز میں پہنچ جائیں گے؟

لہٰذا ایک درخت ہے جس کے قریب دو آدمی ولادیمیر اور ایٹراجن ملتے اور مختلف موضوعات پر بات کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہاں پر گوڈو نامی کسی آدمی کا انتظار کر رہے ہیں۔ پوزو نامی ایک شخص اپنے غلام لکی کو بیچنے مارکیٹ جا رہا ہے اور رک کر دونوں افراد کی گفتگو میں شریک ہوتا ہے۔ پوزو ناچنے اور سوچنے کے ذریعے اُنھیں تفریح فراہم کرتا ہے اور پھر غلام کے ہمراہ چلا جاتا ہے۔
تب ایک لڑکا گوڈو کا پیغام لاتا ہے کہ وہ آج رات نہیں آ رہا، لیکن کل ضرور آئے گا۔ دونوں منتظر افراد وہاں سے جانے کا فیصلہ کرتے ہیں، لیکن پردہ گرنے تک وہیں رہتے ہیں۔ اگلے روز وہی چاروں دوبارہ وہاں آتے ہیں، لیکن پوزو اندھا اور غلام گونگا ہو چکا ہے۔ وہ چلے جاتے ہیں اور انتظار جاری رہتا ہے۔ قاصد لڑکا ایک بار پھر آتا اور بتاتا ہے کہ گوڈو نہیں آرہا۔ دونوں منتظر دوبارہ رخصت کا فیصلہ کرتے ہیں لیکن پردہ گرنے تک نہیں جاتے۔

یہ ڈراما زندگی کے اتفاقی سٹیج پر اتفاقاً مل جانے والے دو افراد کی باتیں ہے۔ وہ کبھی اپنے مصائب اور مقدر پر بات کرتے ہیں، پھانسی لینے کی سوچ کا ذکر کرتے ہیں، مگر وہ منتظر ہیں۔ وہ باتیں کرتے رہتے ہیں۔ اُنھیں نہیں معلوم کہ وہ کون ہیں اور یہاں کیوں آئے۔ شاید ایک انتظار نے اُنھیں یکجا کر دیا۔ ہستی کا کوئی نہ کوئی سبب تو ہو گا؟ شاید گوڈو آئے تو بتائے گا۔ عین ممکن ہے کہ یہ انتظار اور سوچ ہی اُن کی لاحاصل ہستی کا واحد علاج ہو۔ نہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

واقعی خوب صورت چیزیں اُداس کرنے والی ہوتی ہیں، یا اُداس کرنے والی چیزیں ہمیں خوب صورت لگتی ہیں۔ میں نے زیادہ تر حسین لوگوں کو دلگیر ہی دیکھا ہے۔ شاید اُنھیں مارلن منرو کی طرح فانی پن سے زیادہ خوف آتا ہے۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply