ایک اور جیالا رخصت ہوگیا

ہميشہ تازہ دم نظر آنے والے جہانگير بدر آخر اس دنيا سے رخصت ہوگئے۔ جب بھی ان سے ملاقات ہوئي تووہ لاہوری لہجے ميں ہي پنجابی ، اردو اور انگريزي بولتے نظر آئے۔ جب وہ اپنے نام کو بھی ج”ہانگيڑ بدڑ” کے طور پر ادا کرتے تو لوگوں کے چہروں پر ايک مسکراہت ابھر آتی۔ جتنے وہ چاک و چوبند تھے کہ لگتا ہی نہيں تھا کہ وہ عمر کے لحاظ سے ستر کے پيٹے ميں داخل ہوچکے ہيں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اندرون لاہور ميں 1944 ميں ايک نہايت ہي غريب گھرانے ميں پيدا ہونے والے جہانگير بدر کو آگے بڑھنے ميں کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کبھی کبھی ان کا ذکر کرتے ہوئے آبديدہ ہوجاتے تھے۔ 1960 کي دہائي ميں انہوں نے ايک طالبعلم رہنما کے طور پر خارزار سياست ميں قدم رکھا۔ پيپلزپارٹي کا قيام عمل ميں آيا تو وہ ذوالفقار علي بھٹو کے قريبي ساتھيوں ميں شامل ہوگئے۔ پيپلزپارٹي کے ساتھ چار دہائي سے زيادہ کي رفاقت ميں ان کو سياسي طور پر عروج بے نظير بھٹو کے ادورار ميں ملا۔ 1988 کے انتخابات ميں وہ پہلي مرتبہ قومي اسمبلي کے رکن منتخب ہوئے۔ وفاقی کابینہ میں بطور وفاقي وزير برائے پيٹروليم و قدرتي وسائل جگہ بنائی۔ جہانگیر بدر پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر اور مرکزی سیکرٹری جنرل کے عہدوں پر بھی رہے۔ 1994 اور 2009 میں جہانگیر بدر دو مرتبہ سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے ۔جہانگیر بدر نے سیاسیات میں پی ایچ ڈی کی اور سیاسات کے موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی۔ جہانگير بدر پر جنرل ضياء الحق اور غلام اسحاق خان کے ادوار ميں مالي بدعنواني کے الزامات لگے اور ريفرنس بھي دائر کيے گئے۔ مگر تحقيقات ميں کچھ ثابت نہ ہوا۔ آمرانہ ادوار ميں کوڑوں کي سزا کے علاوہ متعدد بار جيل بھی کاٹی۔ ذوالفقار علي بھٹو کي حکومت ختم ہونے اور ان کو پھانسی کی سزا کے بعد جب پيپلزپارٹي کے اکثر رہنما بيرون ملک چلے گئے يا ضياءالحق کی حامی جماعتوں ميں آگئے۔ اس وقت جہانگير بدر ان چند جيالوں ميں شامل تھے۔جنہوں نے پيپلز پارٹي سے رشتہ نہيں توڑا۔ ان پر کوئي اور الزام تو شايد لگ سکتا ہے۔ مگر سياسي بے وفائی کے وہ کبھی بھی مرتکب نہيں ہوئے۔

Facebook Comments

محمد لقمان
محمد لقمان کا تعلق لاہور۔ پاکستان سے ہے۔ وہ پچھلے 25سال سے صحافت سے منسلک ہیں۔ پرنٹ جرنلزم کے علاوہ الیکٹرونک میڈیا کا بھی تجربہ ہے۔ بلاگر کے طور پر معیشت ، سیاست ، زراعت ، توانائی اور موسمی تغیر پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply