• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ)پون صدی قبل کے ہنزہ کی ایک جھلک- پرنس عبداللہ:جنگ آزادی کے جیالے ہیرو: قدیم محل:پولو کا میچ/سلمیٰ اعوان(قسط12-الف)

میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ)پون صدی قبل کے ہنزہ کی ایک جھلک- پرنس عبداللہ:جنگ آزادی کے جیالے ہیرو: قدیم محل:پولو کا میچ/سلمیٰ اعوان(قسط12-الف)

سات آٹھ سیڑھیاں اترنے میں میں نے خاصی دیر لگائی تھی۔ پوڈے کافی اونچے اور چھوٹے سے زینے کی ترتیب تقریباً سیدھی تھی۔ گر پڑنے کا خطرہ تھا۔ فوراً بعد ایک چھوٹا سا کمرہ دیکھنے میں آیا۔ اس سے آگے بھی ویسا ہی ایک اور کمرہ تھا۔ دونوں کمرے ایک طرح سردیوں میں برفانی ہواؤں کے سیلاب کو روکنے کے لئے حفاظتی بند کا کام دیتے تھے۔ بڑے کمرے میں داخل ہونے سے قبل جوتے اتار دئیے گئے۔
یہاں خوبصورت چہروں والے مرد و زن اور بچے لالٹین کی روشنی میں مسکراتے ہوئے مجھے دیکھ رہے تھے۔
یہ دیدار علی کے دوست کا گھر تھا۔ ہنزہ میں بجلی ضرور ہے پر اس کی حالت اس تنک مزاج غصیلی بہو جیسی ہے جس کا جب اور جس وقت جی چاہے منہ اٹھا کر گھر سے نکل جاتی ہے اور پھر کہیں گھر والے کے سو ترلے منتوں سے واپس آتی ہے۔
نمکین چائے کے پیالوں سے اٹھتی بھاپ اور ذائقہ دار چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے مجھے مشہور کوہ پیما اور سیاح ڈونلڈ کنگ یاد آیا تھا جس نے کہا تھا ہنزہ آنا گویا ایک قدیم‘ پر امن ‘پر اسرار اور انتہائی خوبصورت دنیا میں داخل ہونا ہے۔
اس وقت میں اسی دنیا کا ایک حصہ بنی بیٹھی تھی۔
لپا پتا صاف ستھرہ سلیقے اور قرینے جیسی خوبیوں سے سجا سنورا کمرہ جس کی دیواروں پر ہزہائی نس پرنس کریم آغا خان اور شہزادی سیلمہ مسکراتے تھے۔
میں نے معمر مرد کی طرف دیکھا تھا۔ میری نگاہوں میں پھیلتے سوال کو اس نے میرے ہونٹوں پر آنے سے پہلے ہی چھین لیا تھا۔
آج کا ہنزہ نصف صدی قبل کے ہنزہ سے بہت مختلف ہے۔ پرانی میرے جیسے لوگوں کی نسل ان دشواریوں مسائل اور تکلیف کی چشیدہ ہے۔ نئی نسل بہت کچھ پانے کے باوجود مضطرب ہے۔
انگریز جب ہندوستان میں آئے تو انہوں نے ہنزہ اور نگرپر بھی قبضہ کرنا چاہا۔ نگر اور ہنزہ ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار رہتے تھے۔ مگر اس دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے انہوں نے متحدہ محاذ بنایا۔ کئی بار مقابلے ہوئے۔ انگریزوں کو منہ کی کھانا پڑی۔ مگر ان کی حکمت عملی اور جدید سامان ان کی بالادستی کا موجب بنا۔ کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھ کر انتظام مقامی میر کے سپرد کر دیا گیا۔
یہ زمانے دکھوں کے تھے۔ آمد و رفت اتنے دشوار گزار تھے کہ سفر کا تصور محال تھا۔ گلگت جانے کے لئے چھلت کی چوکی پر باقاعدہ راہ داری کا پروانہ حاصل کرنا پڑتا۔ مذہبی تعصب اتنا تھا کہ ہنزہ کے لوگوں کو شہر میں رات گزارنے کی اجازت تک نہ تھی۔ سردیوں کی یخ بستہ راتیں بھی شہر سے باہر غاروں میں گزارتے۔ آوارہ کتے آتے اور ان کے کپڑے جوتے تک اٹھا کر لے جاتے۔
غربت’ پریشانیوں’ فکر و غم اور تفکرات نے کئی دلچسپ روایتوں اور کہانیوں کو جنم دیا۔ تقسیم سے پہلے ہنزہ کے ایک شخص قدیر نامی کو کسی جرم کے سلسلے میں سزا ہوئی۔ اسے گلگت لا کر قید کر دیا گیا۔ جیلوں میں قیدیوں کو جو سرکاری راتب دیا جاتا تھا اس کا معیار نہایت پست تھا پر قدیر کو تو اس بات پر حیرت تھی کہ یہ کیسی قید ہے؟ کہ دونوں وقت کھانا ملتاہے۔ اپنی دانست میں وہ عیش کر رہا تھا۔ اب اسے بیوی بچوں کا خیال پریشان کرنے لگا۔ ان کی بھوک کا خیال اسے ستانے لگا۔ اس نے سوچا کہ انہیں بھی قید کرا دو۔ بھوک سے تو نجات مل جائے گی۔ چنانچہ اس نے متعلقہ حکام سے گڑ گڑا کر درخواست کی کہ اس کی بیوی بچے بھی جیل بھیج دئیے جائیں۔ حکام بڑے حیران ہوئے کہ ماجرا کیا ہے؟بہرحال تحقیقات پر عقدہ کھلا کہ قدیر صاحب جیل نہیں کاٹ رہے ہیں بلکہ داد عیش دے رہے ہیں۔
زمین او رپانی کی قلت گو ابھی بھی ہے لیکن ایک وقت ایسا تھا جب پیٹ کے ہاتھوں مجبور انسانوں نے موت کو بھی وقت کا پابند بنا دیا تھا۔ جان توڑ محنت کرنا پڑتی تھی۔ دن بھر کی مشقت کے بعد لوگ بستروں پر گرتے تو صبح کی خبر لیتے۔ مختلف امور کے لئے انہوں نے مختلف مہینے مقرر کئے ہوئے تھے۔
سورج جب سنبلہ برج میں چلا جاتا تو موت کا مہینہ آجاتا۔ یہ عموماً ستمبر کے آخر میں شروع ہوتا۔ لوگ فصل باڑی سے فارغ ہو کر موت کی تیاریاں شروع کر دیتے۔ قبرستانوں میں قبریں کھودی جاتیں۔ بیمار اور بوڑھوں کی خوب خاطر تواضع کی جاتی۔
یہ حقیقت تھی کہ اس ماہ کے علاوہ کسی کے مرنے کا واقعہ شاذ ہی رونما ہوتا۔ بدعاؤں میں ایک بددعا یہ بھی تھی کہ تجھے سنبلہ برج نصیب نہ ہو۔ یعنی تو ایسی موت مرے کہ لوگ مصروفیت کی وجہ سے تیری تجہیزو تکفین نہ کر سکیں۔
پیداوار کی شدید قلت تھی۔ نمک کھا کر حلال کرنے کا محاورہ دراصل ہنزہ کے اس دور کی تخلیق ہے جب یہ شاذ ہی استعمال ہوتا تھا۔ مٹی کو چھان پھٹک کر حاصل کیا جاتا۔ روزمرہ کی اشیائے خوردنی میں اس کے استعمال کا تصور بھی نہ تھا۔ کسی جان بلب مریض کے لئے طبیب نمک تجویز کرتا تو اس کی تلاش شروع ہوتی جس کے پاس ہوتا وہ ڈلی کو پانی کے گلاس میں دو تین بار ڈبوتا۔ یہ اس کا ناقابل فراموش احسان شمار کیا جاتا تھا۔
اور عین اس وقت ایک نوجوان نے اس معمر مرد کی گفتگو کو کاٹ دیا۔ اس کی آواز میں جوشیلی جھنکار تھی۔
فطرت اور ماحول کے ان دکھوں اور چیرہ دستیوں کے ساتھ ساتھ کچھ عذاب انسانوں کی صورت میں بھی غریبوں پر نازل تھے۔ میروں (راجے) کی خدمت میں نذرانے ‘ان کے کھیتوں پر بلا معاوضہ کام’ نیا اور پرانا محل جنہیں یقینا آپ نے دیکھا ہو گا ان کی تعمیر ہمارے ہی باپ داداؤں کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ ان کی ایک ایک اینٹ میں ان کا وہ پسینہ جذب ہے جس کی مزدوری ادا نہیں ہوئی۔
اور اب کمرے میں مباحثے کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ نوجوان لڑکے اعتراضات کے تیروں سے لیس تھے۔ جبکہ بوڑھے نہ صرف مدافعت کرتے تھے بلکہ میروں اور راجاؤں کے لئے ان کی گفتگو میں احترام کے جذبات بھی تھے۔ میر جمال (موجودہ میر آف ہنزہ کے والد) کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگوں کے معاشی’ سماجی اور خانگی جھگڑوں کو بہت مدبرانہ اور احسن انداز میں نمٹاتے تھے۔ میر غضنفر بھی علاقے کی ترقی کے لئے کوشاں ہیں۔ ان کی اہلیہ عتیقہ غضنفر سماجی مسائل میں گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔
‘‘جی ہاں’’
ایک خوش شکل لڑکا مسکرایا۔ غریب کا بچہ پڑھ نہیں سکتا تھا۔ اگر اس کی ذہانت اور تقدیر نے ا سکا ساتھ دیا اور وہ کسی طرح باہر نکل گیا تو جب تک اسے واپس نہیں لایا جاتا تھا۔ میربیچارے کا کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا۔
ہاں آپ نے وہ مشہور زمانہ کہانی تو سنی ہو گی۔ ‘‘پرنس عبداللہ کی’’۔ اس وجیہہ صورت لڑکے نے میری آنکھوں میں جھانکا۔
‘‘ارے کہاں۔ سناؤ نا’’۔ میں نے اشتیاق بھرے لہجے میں کہا۔
وہ میری طرف ہلکا سا جھکا۔ مسکرایا اور بولا۔
‘‘غور سے سنیئے گا’’۔
یہ پاکستان سے پہلے کی بات ہے۔ میر آف ہنزہ کے ایک منشی کا چرواہا یہ چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا بہت بڑا آدمی بنے۔ وہ کچھ عالمانہ ذہن کا مالک تھا۔ اپنے بیٹے کو اس نے تعلیم دینی اور دلوانی شروع کی۔ اس وقت ہنزہ میں صرف ایک ہی پرائمری سکول تھا۔ وہاں سے پڑھنے کے بعد باپ نے اسے گلگت بھیج دیا۔میر کو اس بات کی خبر ہوئی تو اس نے بہت برا منایا۔ چرواہے کو بلا کر کہا۔
‘‘تم سمجھتے ہو کہ وہ چار جماعتیں پڑھ کر ڈپٹی کلکٹر بن جائے گا یہ تمہاری بھول ہے۔ وہ گڈریا کا بیٹا ہے اسے گڈریا ہی رہنے دو۔ دو لفظ پڑھ کر دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا والی بات ہو جائے گی’’۔
پر اس ڈانٹ کا چرواہے پر الٹا اثر ہوا۔ اس نے بیٹے کو کہلا بھیجا کہ بڑے لوگ تمہاری پڑھائی کے دشمن ہیں۔ مرد کا بچہ بننا ۔ ہنزہ مت آنا۔ یہاں سے آگے نکل جانا۔
لڑکا مڈل پاس کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لئے سری نگر چلا گیا۔ اب اس پر خود پڑھائی کا بھوت سوار ہو چکا تھا۔ وہ فارغ وقت میں ٹیوشنز کرتا اور یوں اخراجات پورے کرتا۔
‘‘انہیں وہ رضائی والی بات بھی سناؤ۔’’
خوش شکل لڑکے کے ایک ساتھی نے اسے ٹہوکا دیا۔
وہ کھلکھلاکر ہنس پڑا۔ جوانی کی بے ساختہ اور من موہنی ہنسی۔
ضرور’ ضرور۔
پرنس عبداللہ ایک ذہین اور فطین طالب علم تھا۔ اس نے بہت جلد اساتذہ کی نظروں میں اپنے لئے جگہ بنا لی تھی۔ اپنے اخراجات پورا کرنے کے لئے وہ ٹیوشنز کرتا۔ ضروریات پوری کرنے کے بعد کچھ پیسے بچا بھی لیتا۔ دو سال بچت سے اس نے رضائی بنائی۔ جب پہلی بار اس رضائی کو اوڑھ کر لیٹا تو لطف اندوز کی ایک ایسی کیفیت سے سرشار ہوا جس کا اس سے قبل ا س نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ وہ مسلسل تین دن رضائی میں لیٹا سرشاری کی پھوار میں بھیگتا رہا۔
اب ظاہر ہے کہ ایک ذہین اور لائق طالب علم کلاسوں سے غائب ہو تو اساتذہ کی پریشانی اور تشویش حق بجانب تھی۔اس نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ سکول حاضری میں بھی اپنا ایک ریکارڈ قائم کر رکھا تھا۔ جب تحقیق ہوئی تو بھید کھلا کہ موصوف رضائی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
بہرحال یہ تو اضافی باتیں ہیں جو ہم نے آپ کو سنا دی ہیں۔ اسی من موہنے سے لڑکے نے مجھے کہا اور سلسلہ گفتگو پھر شروع ہو گیا۔
ہنزہ جیسی پس ماندہ جگہ کا رہنے ولاسری نگر کی عمارتوں’ سڑکوں’ پارکوں اور رنگ برنگے لوگوں کو دیکھ دیکھ کر حیرت زدہ ہوتا۔ ایک دن ایسے ہی جب وہ منہ اٹھائے دائیں بائیں دیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا کہ اچانک مہاراجہ ہری سنگھ کا وہاں سے گزر ہوا۔ وہ کار میں بیٹھا ہوا تھا۔ پرنس عبداللہ ٹھٹھک کر کھڑا ہو گیا۔وہ حیران تھا کہ یہ بند ڈبہ کیا عجوبہ ہے جو سڑک پر پھسلتا جا رہا ہے۔ ہری سنگھ کو گاڑی رکوانی پڑی۔ ا سکی آنکھوں سے مترشح حیرت کو اس نے دلچسپی سے دیکھا۔ نیچے اترا۔ اب اس پر ہری سنگھ کے پرشکوہ لباس کو دیکھ کر حیرانگی کا ایک اور دورہ پڑا۔
‘‘کون ہو تم؟ کہاں سے آئے ہو اور یوں ٹکر ٹکر میری صورت کیا دیکھتے ہو؟’’
اس نے گھگھیا کر دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔
یہ جاننے پر کہ وہ غریب لڑکا غربت کا مقابلہ کرتے ہوئے اتنی دور صرف تعلیم حاصل کرنے آیا ہے۔ اس نے اس کا وظیفہ مقرر کر دیا۔
اب جونہی اس واقعے کی اطلاع میر آف ہنزہ کو ہوئی۔ اس نے فوراً چرواہے کو بلوایا۔ اسکے کان کھینچے اور حکماً کہا کہ لڑکے کو واپس بلاؤ۔ ہم خود اس کے تعلیمی اخراجات کا بار اٹھائیں گے۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ باپ نے بیٹے کو ہنزہ بلا لیا۔ مگر بعد میں میر آف ہنزہ نے نہ صرف پیسے دینے سے انکار کر دیا’ بلکہ دھمکی بھی دی کہ اگر تم نے پڑھنے پڑھانے کی طرف توجہ کی تو انجام اچھا نہ ہو گا۔ لڑکا موقع پا کر پھر بھاگ نکلا۔ بمبئی پہنچا۔ آغا خان سے ملا۔ انہوں نے اس کا تعلیمی شوق دیکھتے ہوئے اسے انگلینڈ بھجوا دیا۔ جہاں اس نے بارایٹ لاء کیا اور اپنے آپ کو پرنس کہلوایا۔
تین ہزار آٹھ سو چالیس مربع میل کے پھیلاؤ میں گھری ہوئی ہنزہ وادی تقریباً پینتالس ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ ننانونے فیصد اسماعیلی’ ایک فیصد شیعہ اور چند گھرانے سنی لوگوں کے ہیں۔ معاشی لحاظ سے یہ وادی خاصی عروج پر ہے۔ آغا خان کے بہت سے ترقیاتی منصوبے یہاں زیر تکمیل ہیں۔ آغا خان دیہی ترقیاتی پروگرام کے تحت بہت کام ہو رہا ہے۔ ریاست کا نظم و نسق چلانے کے لئے مختلف سطحوں پر کونسلیں قائم ہیں۔ یہ کونسلیں ایسے افراد پر مشتمل ہیں جو معاشی اور مذہبی دونوں طرح مضبوط ہیں۔ ان کو نسلوں کے سربراہوں کے احکامات مذہبی سپرٹ سے تسلیم کئے جاتے ہیں۔
موجودہ میر غضنفر علی ترقیاتی کاموں میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہنزہ کے پہاڑی سلسلے قیمتی معدنیات اور جواہرات سے مالا مال ہیں۔ معدنیات کی تلاش کے لئے ہنزہ مائتنگ کارپوریشن بنائی گئی ہے۔ جس میں ۲۵ فیصد حصص ہزہائی نس کریم آغا خان ۲۵ فیصد میر صاحب اور باقی حکومت کے ہیں۔
چائے کا دوسرا دور چلا۔ میں نے گھڑی دیکھی اور اجازت چاہی۔ لڑکوں کی پوری ٹولی مجھے ہوٹل تک چھوڑنے آئی۔ رات اتنی تاریک اور ستارے اتنے روشن تھے کہ دو متضاد کیفیات کا احساس ہوتا تھا۔
انہیں خدا حافظ کہہ کر میں اندر آئی۔ بیچاری عروج میرے انتظار میں بھوکی بیٹھی تھی۔ کھانا کھایا۔ گنش کی کسی عور ت نے اُسے لفافہ بھر گلاس (چیری) دئیے تھے۔ ہم تینوں نے کھائے۔
دفعتاً شور شرابے کا ایک ریلا بہتا ہوا آیا۔ کھٹے میٹھے گلاسوں کو چھوڑ کر میں نے چھلانگ لگائی اور کمرے سے باہر آگئی۔ دس بارہ غیر ملکیوں کا ٹولہ جن میں وہ دوپہر والا تہنگ ملنگ لڑکا بھی شامل تھا‘ برآمدے میں کھڑا قہقہے لگاتا اور شور مچاتا تھا۔ پتہ چلا کہ یہ لوگ درّہ خنجر اب جا رہے تھے۔ مسگر سے آگے گلیشیر کا ایک تودہ سڑک پر آجانے سے راستہ بلاک ہو گیا۔ پاکستان آرمی کے جوان اسے ہٹانے میں مصروف تھے۔ دو دن بعد راستہ کھلنے پر ان کا دوبارہ جانے کا پروگرام تھا۔
‘‘آپ بھی چلیں’’۔ اس نے میری طرف دیکھا۔
میرا دل اس وقت ان دو لقی کبوتروں کی طرح بن جانے کو چاہا جو اس ٹولے میں موجود تھیں اور اطمینان سے برآمدے میں پڑے رک سیکوں پر بیٹھی چنگموں کی جگالی کر رہی تھیں۔
ایسے من چلے کھلنڈروں اور جنونی لوگوں کے ساتھ سفر کرنا بھی کیسا دلچسپ اور حسین تجربہ ہو گا۔
میں ے اپنے آپ سے کہا تھا۔
پر میں دل مسوس کر رہ گئی۔ اتنے دن نہیں تھے میرے پاس۔ پل پل قیمتی تھا۔ رات یوں کٹی کہ میں اور عروج سرہانے اور پائنتی کے چکروں میں ہی چکر کھاتی رہیں۔ صبح نماز کے لئے اٹھی باہر نکلی۔ کمپاؤنڈ میں لگے نل سے وضو کرنا چاہا۔ ابھی پانی کا چلو میری ناک تک ہی پہنچا تھا کہ میرے سارے سریر نے یوں جھٹکا کھایا جیسے ناگہانی زلزلے کے اثر سے کوئی اچھی بھلی عمارت ڈولنے لگتی ہے۔
میں دہل کر اندر بھاگی تھی۔ میرا سانس لوہار کی دھونکنی کی مانند چلتا تھا۔ عروج اور اس کا میاں زمان دونوں خواب سحری کے مزے لوٹ رہے تھے اور میں عین کمرے کے وسط میں کھڑی اپنے آپ کو نارمل کرنے کی کوشش میں تھی۔
واقعہ یہ تھا کہ چلو بھر پانی میں ناک ڈوبنے سے پہلے ہی اچانک میری نظریں سامنے کے کمروں کی طرف اٹھ گئی تھیں۔ جالی کے دروازے کے ساتھ مادر زاد برہنہ ایک ہپئی کھڑا سگریٹ کے مرغولے اڑا رہا تھا۔
میں نے غسل خانے کا نل کھولا۔ شُوں شُوں نے میری پذیرائی کی۔ سرخ پلاسٹک کی سیاہ ہینڈ والی بالٹی اندر سے یوں خالی تھی جیسے لنڈے بازار کے پینٹ کوٹ سے سجے کسی قلاش نوجوان کی جیب۔
میں دروازے سے باہر ہیبت پہاڑوں کو دیکھتی تھی۔ ان کی چوٹیوں پر جمی برف کے سلسلے خدائے واحد کی تجلیوں کے نمائندہ تھے۔ میں ہنزہ کی سرزمین پر اس سہانی صبح اس کے حضور ہر صورت سجدہ ریز ہونا چاہتی تھی۔ میں نے ہمت کی اور دروازے سے باہر جھانکا۔ صد شکر کہ وہ منحوس غائب تھا۔
نماز سے فارغ ہو کر میں نے مسٹرو مسز قدوائی کے پاس جانے کا سوچا۔ بھلا کیا سوچتے ہوں گے کہ پلٹ کر انہیں اطلاع تک نہ دی۔
صنوبر کے درختوں سے ٹکراتی خوشگوار ٹھنڈی ہوا پہاڑی جھرنوں کا مستقل راگ پرندوں کی چہکار اور الوہی سکون میں لپٹی وادی ۔میں فطرت کے اس حسین منظر سے لطف اٹھاتی ‘ڈھلانی راستے پر اترتی گئی۔ راکا پوشی ہوٹل کے ڈائنگ ہال میں وہ لوگ بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے کہا۔
‘‘آپ نے حد کر دی۔ بہت پریشان تھے ہم لوگ۔ یہ نوکر البتہ ہمیں کہتا تھا چھوڑو جی’’۔
میری اور نوکر کی نظریں چار ہوئیں۔ چائے کی ٹرے اس کے ہاتھوں میں تھی اور وہ چیڑ کے درخت کی طرح تنا کھڑا میری طرف دیکھتا تھا۔ کمبخت کی چمکتی آنکھوں نے کھلم کھلا جیسے کہا تھا۔
‘‘عورت کا ایک نام ٹیکسی بھی ہے’’۔
میرے اندر بھانپڑ تو ضرور مچا۔ پر گنے کی کھوری کے اس بھانپڑ کو میں نے فوراً مصلحت کوشی کے پانی سے بجھا دیا۔
میاں بیوی کی طرف سے دی گئی دعوت کو قبول کرتے ہوئے چائے پی اور کھڑی ہو گئی۔ پر باہر نکلنے سے پہلے آگے بڑھی عین اس جگہ جہاں وہ کھڑا تھا اور برتنوں کو سمیٹنے میں مصروف تھا۔
ہم دونوں نے ایک دفعہ پھر ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔
‘‘انسانوں کو پہچاننا سیکھو۔ ہر عورت ٹیکسی نہیں ہوتی۔ میں ایک اچھی ماں ہوں۔ یاد رکھنا ایک اچھی ماں ہمیشہ کردار کے اونچے سنگھاسن پر بیٹھی ہوتی ہے’’۔
میں نے پلٹ کر اس کا ردعمل دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔

باہر سورج کی طلائی کرنوں نے وادی کی چوٹیوں کو سنہری جامے پہنانا شروع کر دئیے تھے۔
رنگین دھاگوں کی کڑھائی سے سجی ٹوپیاں اوڑھے بہت سی عورتیں جماعت خانے سے آتی دکھائی دی تھیں۔ میں علی مدد کے گھر جانا چاہتی تھی۔ 1965ء کی جنگ کے ایک جیالے ہیرو کے گھر جس نے کیل کے جنگلوں میں اس اہم چوکی کو بچانے میں دشمن کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔ جس پر قبضہ ہماری دفاعی صلاحیتوں کو شدید متاثر کرتا۔
‘‘کیا اتنے سویرے سویرے کسی کے گھر جانا مناسب رہے گا’’۔ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا تھا۔
میں اوپر چڑھتے ہوئے گومگو کی حالت میں تھی۔ سر خ وسفید رخساروں والے بچے رک رک کر میری صورت دیکھتے تھے کیونکہ تھوڑی سی چڑھائی کے بعد میر اپھولا ہوا سانس مجھے رکنے اور چند لمحے سستانے پر مجبور کرتا تھا۔ جماعت خانہ کے پاس کہیں گھر تھا۔ کسی سے پوچھا تو اس نے کہا۔
‘‘وہ تو فوت ہو گئے ہیں۔ ہاں البتہ ان کا بڑا بیٹا سلطان مدد یہیں ہنزہ میں ہی ہے’’۔
پہلے سوچا یہیں سے لوٹ جاؤں۔ پھر خیال آیا اب آگئی ہوں تو مل لیتی ہوں۔ باپ نے شجاعت اور دلیری کی جوداستان رقم کی‘بیٹا اس سے واقف تو ہو گا۔ اسی سے سن لوں گی۔ گھر اور جماعت خانہ کے درمیان پانی کا کنواں ہے۔ عورتیں پانی بھر رہی تھیں۔ مین گیٹ خاصی بلندی پر تھا۔ کئی سڑھیاں چڑھنی پڑیں۔ الٹے ہاتھ پرانے گھر کا بڑا دروازہ تھا۔
نئے گھر کے جدید انداز میں سجے ڈرائنگ روم کی کھڑکیوں سے میں نے جھانک کر نیچے دیکھاتھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے قدموں کے نیچے ایک ایسا سبز غالیچہ بچھا ہوا ہے ‘جس پر مختلف النوع رنگوں کی انسانوں’ مکانوں اور جانوروں کی شبیہیں بنی ہوئی ہیں۔ جاذب نظر شبییں جنہیں دیکھ دیکھ کر نہ آنکھوں کی پیاس بجھے اور نہ روح کی۔
پھر باتوں کے وہ دروازے کھلے جن کے اندر جب الوطنی کے چراغوں کی روشنی سے منور تھے۔ اچانک انہوں نے کہا۔
‘‘آپ شاہ خان سے ملیں گی۔ جنگ آزادی میں گروپ کیپٹن شاہ خان کی خدمت ناقابل فراموش ہیں’’۔
میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
‘‘اس احسان کے لئے میں آپ کی شکر گزار ہوں گی’’۔

شاہ خان اپنی جوانی میں بہت خوب رو جوان رہے ہوں گے۔ ان کی چھاتی بے شمار تمغات سے سجی تھی۔ جہاد کشمیر میں ستارہ جرات سے نوازے گئے۔ ستارہ امتیاز ‘تمغہ بسالت اور دیگر چھوٹے بڑے تمغات ان کا قیمتی اثاثہ ہیں۔
رسیلی ذائقہ دار خوبانیوں’ خوش رنگ میٹھے شفتالوؤں اور سفید توتوں سے کہیں زیادہ ان کی باتیں رس بھری تھیں۔ جنگ آزادی کے بارے میں کچھ جاننے کی خواہش کا اظہار ایسا ہی تھا جیسے غزل چھیڑ کر ساز ان کے ہاتھوں میں تھما دیا جائے۔ وہ عمر رفتہ کو آواز دے رہے تھے۔
نظریہ پاکستان کی کشش کے پیش نظر جہاں عام لوگ انقلابیوں کے ساتھ تھے۔ وہاں راجے اور میر دلی طور پر ڈوگرہ حکومت کے وفادار تھے۔ انہیں تاریخ کا ایک عظیم کردار بننے کی بجائے ان مراعات اور فوائد کا احساس تھا جو ڈوگرہ حکومت کی طرف سے انہیں حاصل تھے۔ ان حالات میں یہ انقلاب اگر ناکام ہو جاتا تو ہمارے جیسے ہزاروں سرفروشوں کا انجام کس قدر عبرت ناک ہوتا۔
ہنزہ کے گاؤں گریتھ میں پیدا ہونے والے گمنام مرتضیٰ اُن کی یادوں اور تاریخ کے صفحات سے نکل کر باہر آگئے۔ انقلاب کے پہلے مرحلے میں ان کا نمایاں کردار ۱۹۶۵ء کی لڑائی میں بحیثیت کمانڈر کمانڈو ان کا سری نگر تک پہنچ جانا اور ستارہ جرات پانا تھا۔
میرا خون اس وقت اس قہوے کی طرح گرم تھا جو بھاپ اڑاتا میرے سامنے پڑا تھا۔
ہنزہ کے وزیر خاندان سے تعلق رکھنے والے صفی اللہ بیگ اور فد اعلی کی باتیں نومبر کی وہ یخ بستہ راتیں جب صفی اللہ بیگ بھوپ سنگھ پڑی پر بونجی کی طرف سے دشمن کے خطرے کے باعث متعین تھے۔ زوجیلہ اور کارگل میں انہوں نے دشمن سے جو فیصلہ کن جنگ لڑی۔ فدا علی کا دوران انقلاب گلگت خاص میں بطور کواٹر ماسٹر فرائض کی انجام دہی میں سننسی خیز واقعات سے نپٹنا۔
یہ اعزاز بھی ہنزہ نے ہی حاصل کیا کہ جنگ آزادی کا پہلا شہید امیر حیات اسی سرزمین کا فرزند تھا اور پھر ان رقابتوں ‘ریشہ دوانیوں اور گھپلوں کا ذکر بھی ہوا جن کے تحت چند جوئنیر افسروں کی علاقائی اور خاندانی بنیادوں پر ترقیاں ہوئیں اور وہ سینئر صوبیدار جو میدان جنگ میں کارہائے نمایاں سر انجام دے چکے تھے ‘نظر انداز ہوئے۔ صفی اللہ بیگ اور شیر علی پینشن جیسی مراعات سے بھی محروم رہے۔
میں جس دنیامیں سانس لے رہی تھی وہ وقت کی قید سے آزاد تھی۔ آخری حصہ اُس سولوں کی طرح تھا جو اچھی بھلی پگڈنڈی پر درخت سے گر کر بکھر جاتی ہیں اور پاؤں میں چبھ کر مسافر کو تکلیف وہ احساس بخشتی ہیں۔
میں بھی دکھ کی چبھن سے تڑپ کر وقت کی قید میں واپس آئی تھی۔ ایک بج رہا تھا۔ میرے سر کے عین اوپر پرانا محل شکستہ دل ضرور نظر آتا تھا پر تناؤ اور اکڑ اس محاورے کی یاد دلاتا تھا کہ مرتی مر جائے گی پر اکڑ نہیں جائے گی۔ اتنا قریب آ کراسے دیکھے بغیر لوٹ جانا مناسب نہ تھا۔
پاؤں چڑھائی کی طرف مائل تھے۔ قریب پہنچنے پر دائیں ہاتھ ایک خوشنما بنگلہ نظر آیا گیٹ کے پاس ایک اٹھارہ انیس سالہ لڑکی کھڑی تھی۔ بھولی بھالی معصوم سی یہ وزیر ساجد علی کا گھر اور لڑکی ان کی بیٹی راحیل تھی۔ راحیل جنگلوں بیابانوں میں اگنے والی خوبصورت کھمبی کی مانند تھی۔ بصد اصرار اپنے گھر لے گئی۔ ایک نشست وزیر ساجد کے ساتھ جمی۔ راجگی نظام کی زوال پذیری اور پرانی قدروں کے ختم ہونے پر وہ شاکی سے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply