محبت فاتحِ عالم۔۔ڈاکٹر محمد شافع صابر

شاہ عبداللطیف بھٹائی نے کہا تھا کہ”عورت عشق کی استاد ہے”،میں اس میں یہ اضافہ کر دیتا ہوں کہ “مرد عشق کی انتہا ہے”
کل میڈیسن وارڈ میں ڈیوٹی تھی،ایک مریضہ تھی،اسکا جگر بالکل کام کرنا چھوڑ چکا تھا۔عمر بھی لگ بھگ 65 سال تھی۔اسکے ساتھ اسکا شوہر تھا۔مجھ سے پہلے والے ڈاکٹرز نے اسے مریضہ کی تشویشناک حالت کے بارے بتا دیا تھا۔میں راؤنڈ پر گیا،اسکا بلڈ پریشر نہایت کم تھا۔ آکسیجن لگنے کے باوجود اسے سانس لینے میں دشواری تھی۔اسکا شوہر دم سادھے میرے سوالوں کا جواب دے رہا تھا۔اس کی آواز میں بَلا کی مجبوری و کپکپاہٹ تھی۔بولتے بولتے وہ چپ ہو جاتا تھا۔میں نے دلجوئی کے لیے اس سے مختلف باتیں کیں۔پھر میں نے اسکی بیوی کا علاج شروع کیا۔ڈریپس لگوائیں،سانس میں بہتری کے لیے انجکشن لگوائے۔حالت قدرے سنبھلی۔رات ایک بجے پھر سٹاف  نرس آئی۔میں پھر اسی مریض کے پاس گیا۔کیا دیکھتا ہوں کہ اسکا شوہر اسکی کبھی ٹانگیں دبا رہا تھا تو کبھی سر۔وہ دعا پڑھ کر اس پر پھونکیں بھی مار رہا تھا۔آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی رواں تھی، آواز میں بلا کا درد،مجھ سے اسکی آنکھیں یہی سوال کر رہی تھیں کہ کوئی امید ہے۔؟بھلا ہم عام لوگوں کی قسمت میں معجزے کب ہوتے ہیں۔

میں نے اسے دلاسا دیا کہ اللہ بہتر کرے گا۔ ساتھ میں دعا بھی کر رہا تھا کہ کاش معجزہ ہو جائے،ہاں یہ ممکن نہیں تو،کم از کم میری ڈیوٹی میں نہ  ہو۔لیکن بھلا قسمت کو کون ٹال سکتا ہے،رات 3 بجے سانسوں کی ڈوری ساتھ چھوڑگئی۔وہ تب بھی اس کے سرہانے کھڑا تھا،اسکا ہاتھ تھامے۔بھلا آنکھیں کب جھوٹ بولا کرتی ہیں؟؟ جب محبوب سامنے ہو تو آنکھیں کیسے پلک جھپک سکتی ہیں۔میں نے جب کہا کہ بس اللہ کی رضا۔ اس نے اپنی بیوی کے ہاتھ چوم کر آنکھوں کو لگائے۔ ماتھے پر ہاتھ پھیرا۔کیا اس سے بڑھ کر کوئی دردناک منظر ہو سکتا تھا؟؟دور کسی مسجد سے تہجد کی آذان کی آواز آ رہی تھی، کیا وصال یار کے لیے اس سے بہتر کوئی وقت ہو سکتا تھا؟ میں بوجھل قدموں کے ساتھ اپنے روم میں واپس آ گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

شاہ عبدالطیف بھٹائی نے کہا تھا کہ “عورت عشق کی استاد ہے”،میں اس میں اضافہ کر دیتا ہوں کہ “مرد عشق کی انتہا ہے “

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply