نئی حکومت کا مستقبل(2)-ٹیپو بغلانی

جب لاہور جیسے بڑے شہر میں ن لیگ نے سیاسی کمپین کے نام پر بڑے بڑے بنیر لٹکا رکھے ہوں اور ان پر لکھا ہو کہ
ساڈی گَل ہو گئی اے
تو پھر میں ن لیگ کی نئی حکومت کو ہی سامنے رکھ کر بات کرنا چاہتا ہوں۔کل مریم نواز نے خانیوال جلسے میں عوام سے کہا کہ “خانیوال کے لوگوں کو کیا کیا چاہیے، لسٹ بنا لیں،آپ کے قدموں میں وہ سب لاکر رکھ دوں گی۔”

ٹھیک  ہے،آپ یہ سب کر سکتی ہیں لیکن کریں گی کیسے؟
لائحہ عمل کیا ہو گا؟
سکیم یا پالیسی کیا ہو گی؟

میں اس نکتے پر آتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ ن لیگ کے پاس پیسہ کمانے کے کیا کیا نئے منصوبے ہیں،لیکن اس سے پہلے چند اور باتیں کر لیتے ہیں۔

سیاست کیا ہے؟
سیاست ہے  عوام کا اعتماد جیتنا!آج عوام کی اکثریت پی ٹی آئی کے ساتھ ہے جسے الیکشن سے باہر کر دیا گیا،لیکن ن لیگ کے ساتھ عسکریت ہے جس کے دَم پر سزا یافتہ مجرم پروٹوکول کے ساتھ دَم خَم ٹھونک کر عسکری جہازوں پر بٹھا کر ملک واپس لائے گئے ،جن کو جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے تھے عدالت میں سزائیں کاٹتے۔

ایک منٹ۔۔مجھے پتہ ہے ن لیگ کے حامی عدلیہ کی ان سزاؤں کو ظلم مانتے ہیں۔اس ٹرائل میں ایک ایک پیشی کا حال عوام کے سامنے ٹی وی پر رکھا جاتا تھا،ہر پیشی پر ن لیگ سے پیسہ باہر لے جانے کا ریکارڈ مانگا جاتا رہا،اور یہ پوچھا جاتا رہا کہ لندن میں انہوں نے جائیداد کیسے لیں؟مگر ان کے پاس رسیدیں آج بھی نہیں ہیں اور کل بھی نہیں تھیں۔

پارلیمنٹ میں نواز شریف اے فور پیپر کا رم لیکر سپیکر کے سامنے رکھتے ہیں اور کہتے ہیں۔جناب والا یہ ہیں وہ دستیاب ذرائع۔۔لیکن عدالت میں وہ دستیاب ذرائع والا بنڈل کبھی نہ پہنچا بلکہ
مریم بی بی عدالت کو دھوکہ دینے کے لیے کیلبری فانٹ میں ثبوت بنا کر لے آئیں جو کہ سراسر جعلی تھا،اس سے پہلے وہ جعلی قطری خط بھی پیش کر چکی تھیں۔

عدلیہ نے ان کو سزائیں سناتے وقت لاطینی امریکہ کے سسلیئن مافیا کے خاص حوالہ جات دیے۔
ماریو پوزو کے گاڈ فادر کے متن اس عدلیہ کے فیصلے کا حصہ ہے۔
عوام پہلی بار اس ناول کا سن رہی تھی، وہ ناول یہاں اردو ترجمہ میں بکا، لوگوں نے مطالعہ کیا اور ن لیگ کے کام کرنے کے طریقے کو ہو بہو سسیلیئن مافیا کے کام کرنے کے طریقے جیسا دیکھا اور سمجھا۔

کیا ایسی بدنام زمانہ جماعت کی حکومت کو
عوام اپنے اوپر مسلط ہونے دے گی؟

اس کا جواب ہمیں فروری الیکشن کے بعد مارچ، اپریل اور مئی کے ہنی مون پیریڈ کے بعد جون میں مل جائے گا۔
جون میں بجٹ پیش ہو گا جو نئی حکومت کے خدوخال واضح کرے گا۔
بجٹ میں اعداد و شمار نہیں بلکہ خارجہ پالیسی ڈیل ہو گی۔

تین اہم چیزیں ن لیگ کی نئی متوقع حکومت کو ہر حال میں کرنا پڑیں گی۔

1- افغانستان یا ایران کے ساتھ امریکی مفادات کے تحت جنگ میں بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث ہونا اور یہی جنگی منصوبہ ہی نئی حکومت کو ڈالر کی فراہمی کا ذریعہ بنے گا۔
اس نکتے کی نزاکت کی گہرائی آپ جس حد تک سوچنا چاہیں سوچ سکتے ہیں۔

2- آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیجز کی ترسیل۔

بالکل قرضے ملیں گے، امریکی سفارش پر ملیں گے، بروقت ملیں گے اور زیادہ رقم میں ملیں گے۔
کچھ وقت کے لیے شاید قسطوں کی واپسی میں بھی نرمی ہو
لیکن شرح سود ہرگز ہرگز کم نہیں ہو گی بلکہ پہلے سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔

آئیے اس نکتے کو سوچتے ہیں۔۔

یہ خطرناک ترین نکتہ ہے جو  ملکی سلامتی کے لیے ایٹم بم بننے جا رہا ہے۔خودمختاری کا اس لیے ذکر نہیں کیونکہ خودمختاری کا وجود بھی کہیں نہیں۔

یہ  ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز کا  امریکی قبضہ ہو گا
آئی ایم ایف اچانک اپنا قرضہ واپس مانگے گی یا پاکستان کو دیوالیہ ڈیکلئر کر دے گی،دیوالیہ اعلان کرنے کی صورت میں وہ سب موٹروے، ریڈیو سٹیشن، ٹی وی سٹیشن، ایئرپورٹس، ریلوے ٹریکس اور ہسپتال اور سکول ایک ساتھ آئی ایم ایف کے قبضے میں چلے جائیں گے۔
جن کا اصل مالک امریکہ ہی ہو گا،یوں قریب قریب ملک کا ہر شعبہ نہایت آرام سے ان کے اختیار میں ہو گا اور ملک یرغمال ہو گا۔

یہاں ایک اور سوال بھی ہے،پی ڈی ایم کی قابل ترس حالت کے وقت جب شہباز شریف ملک ملک بھیک مانگنے گئے لیکن کسی ملک نے انہیں منہ نہیں لگایا تو حامد میر نے ان سے وہ سوال ٹی وی پر پوچھا،جو سوال میں شروع دن سے پوچھ رہا تھا۔
یہ سوال تھا کہ رجیم چینج امریکی خواہش پر ہوا لیکن امریکہ نے آپ کی مالی مدد نہیں کی
حالانکہ یہ مالی مدد پی ڈی ایم کو یکدم سکون کا سانس بخش کر سماج میں سرخرو کر سکتی تھی ( مفروضہ ہی سمجھ لیں)

اس پر شہباز شریف کوئی جواب نہ دے پائے،یہ لمحہ بڑا المناک لمحہ تھا۔

3- تیسرا اہم نکتہ یہ ہو گا کہ سی پیک کے سبھی منصوبوں میں چینی بھاری سرمایہ کاری کو کسی طرح پھنسائے رکھنا تا کہ چین زِچ ہو جائے۔
یہاں زِچ کرنے سے امریکہ کو دو فائدے ملیں گے۔
کالے جادو میں ڈوبے پاکستان کے زندہ رہنے کی اس وقت واحد امید سی پیک منصوبہ ہے۔
کسی بھی شعبے میں پاکستان کام کر کے پیسہ نہیں کما سکتا لیکن اس منصوبے کی کامیابی سے جہاں چین کو فوائد ملیں گے وہاں پاکستان کو بھی بڑی رقم مفت میں ہاتھ لگنے کی امید ہے۔
بڑی رقم ہاتھ لگنے کا مطلب ہے پاکستان کا معاشی اور مالی طور پر سنبھل جانا، آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد ہونا، امریکی خوف سے بچ نکلنا۔۔تو کیا امریکہ اپنے غلام کو یوں آسانی سے آزاد ہونے دے گا؟
ہرگز ہرگز نہیں،اب میں اس ہرگز ہرگز نہیں کے لیے ایک مضبوط ثبوت دوں گا۔

دوسری جنگ عظیم میں امریکہ اور جاپان دونوں ہی جنگ سے باہر تھے اور شامل ہونا بھی نہیں چاہتے تھے۔

ایک دن جاپان کو پتہ چلا کہ اس کی تیل کی ترسیل بند ہو چکی ہے اور اس صورت میں اس پر جنگ پہنچی تو وہ زیادہ دن مقابلہ نہیں کر پائے گا،جاپان کے بالکل سامنے ملیشیا اور انڈونیشیاء تھے
یہ تیل سے بھرپور تھے۔
لیکن مسئلہ ایک اور تھا یہ دونوں ملک اس وقت امریکہ کی کالونیاں تھے خیر جاپان نے وہاں سے تیل لینے کا فیصلہ کر لیا۔لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جاپان اور انڈونیشیا، ملیشیاء کے درمیان راستے میں فلپائن پڑتا تھا۔اور فلپائن پر امریکی جنگی اڈہ تھا جو ان دو کالونیز کی حفاظت کر رہا تھا۔جاپان کو اب پہلے فلپائن پر حملہ کرنا تھا۔جاپان نے فلپائن پر حملہ کر دیا،حملہ جزوی کامیاب رہا۔۔لیکن پھر بھی ملیشیاء اور انڈونیشیاء جاپان کے قبضے میں آ گئے۔۔تیل مل گیا۔
اس کا ردعمل امریکہ نے کیسے دیا؟

امریکہ نے جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرا دیے۔

یہ میں آپ کے سامنے امریکہ کی نفسیات رکھ رہا ہوں۔اس وقت پاکستان امریکہ کا مضبوط فوجی اڈہ ہے۔واحد فوجی اڈہ ہے۔ساتھ والے ملک دیکھیں، چین وہ تو امریکہ کے مقابلے کا ہے۔
ہندوستان، وہ مکمل آزاد ملک ہے۔
ایران، وہ امریکہ کا دشمن ملک ہے۔
افغانستان، وہ امریکہ کا دشمن ملک ہے۔بلکہ امریکہ نے تازہ تازہ اس سے شکست کھائی ہے۔

لہذا پاکستان واحد مورچہ ہے جہاں رہ کر اردگرد کے سبھی دوست دشمن ملکوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔
اور وہ یہ اڈہ کسی صورت نہیں چھوڑے گا۔

اس وقت اگر ن لیگ کی حکومت میں امریکہ کا ہاتھ دکھایا جا رہا ہے،یا عدلیہ کے فیصلوں میں اندھا پن دکھایا جا رہا ہے۔یا عسکری ادارے سے رعب اور خوف پھیلایا جا رہا ہے۔تو یہ تینوں ہتھیار اور اوزار امریکہ اپنی شان و شوکت اور اثر و رسوخ سمجھانے کے لیے جان بوجھ کر سامنے رکھ رہا ہے،تا کہ دنیا کے باقی دشمن بھی پاکستان سے سبق سیکھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خیر ناامیدی کی کوئی بات نہیں،ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مِٹ جاتا ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply