بیداری ملت – نویں قسط،مولف/ علامہ نائینی، مترجم / اعجاز نقوی

تیسرا باب:
اس باب میں ہم بیان کریں گے کہ امام مہدی (عج) کی غیبت کے زمانہ میں، جبکہ امام (ع) تک لوگوں کی رسائی نہیں اور امام کے عمومی نائبین کو بھی وہ مقام حاصل نہیں کہ وہ تمام شرعی ذمہ داریاں ادا کرسکیں، تو اس صورت میں کیا آمریت کو آئینی جمہوریت میں تبدیل کرنا واجب ہے؟ یا یہ کہ غیبت کے دور میں یہ ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے؟
اس سوال کا جواب دینے سے پہلے تمہید کے طور پر تین بنیادی نکات پیش کئے جاتے ہیں۔
1: دین کی بنیادی ضروریات میں سے ایک حکم نہی از منکر (1) کے باب میں بیان ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص بہت سی برائیوں کا ارتکاب کرتا ہو تو ہر برائی سے روکنا ایک الگ شرعی فریضہ ہے۔ یعنی اگر کسی ایک برائی سے روکنا ممکن نہ ہو تو باقی برائیوں سے روکنے کا فریضہ ختم نہیں ہوجاتا۔ ہرفریضہ الگ اور مستقل حیثیت رکھتا ہے۔
2: شیعہ امامیہ کا قطعی و متفقہ نظریہ ہے کہ امام مہدی (عج) کے زمانہ غیبت میں میں کچھ اجتماعی و سماجی امور ایسے ہیں جن کو نظرانداز کرنے پر شارع مقدس راضی نہیں۔ انہیں “امور حسبیہ” کہا جاتا ہے۔ غیبت کے زمانہ میں یہ امور فقہاء کرام کے اختیار میں آتے ہیں۔
اور اگر ہم تمام مناصب میں فقہاء کی عمومی نیابت کو تسلیم نہ کریں تو بھی کم از کم امور حسبیہ میں نیابت ثابت ہے۔کیونکہ شارعِ اسلام سماجی نظام کے منتشر ہوجانے پر راضی نہیں۔ اور اسلامی ممالک کی حفاظت سے متعلق تمام تر ذمہ داریاں امور حسبیہ میں سے ہی ہیں۔ (2)
لہٰذا مذکورہ امور میں فقہاء کی نیابت، شیعہ امامیہ کے قطعی امور میں سے ہے۔
3: فقہ کا ایک باب اوقاف پر “ولایت و تولیّت” کا باب ہے۔ اس باب میں بیان کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی شخص تجاوز کرتے ہوئے کسی وقف شدہ زمین (یا وقف شدہ ادارے) پر قبضہ کرلے اور اس کا قبضہ ختم کروانے کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہو۔ تو واجب ہے کہ اس کا قبضہ ختم کرنے کے لئے ایک کمیٹی قائم کی جائے۔ (3) جو اس غاصب کی قبضہ گیری کو ختم کرکے زمین کی وقف والی حیثیت بحال کرے۔
اور یہ ایسا واجب ہے جس کے ضروری ہونے پر نہ صرف علماء اسلام کا اتفاق ہے بلکہ ہر عاقل فرد اس سے اتفاق کرتا ہے، چاہے وہ لامذہب ہی کیوں نہ ہو۔
اب جبکہ یہ تین نکات واضح ہوچکے ہیں تو اس بات میں بھی کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہنا چاہئے کہ آمرانہ نظام کو جمہوری نظام میں تبدیل کرنے کے لئے اس کو آئین کا پابند بنانا واجب ہے۔
چونکہ آپ جان چکے ہیں کہ آمریت میں تین طرح کے ظلم ہیں۔
پہلا ردائے کبریائی کو غصب کرنا، یعنی خالقِ کائنات کے حق میں ظلم۔
دوسرا امام برحق (ع) کے حق میں ظلم۔(4)
اور تیسرا ظلم حقوق العباد کی بربادی، یعنی انسانوں پر ظلم۔ خدا کے بندوں کو اپنا بندہ بنانا اور ممالک اسلامیہ پر قبضہ گیری یہ تیسرا جرم ہے۔
لیکن اگر شورائی اور جمہوری نظام ہو۔ اگرچہ اس کا سربراہ امام برحق نہ ہو، تو بھی یہ آمریت سے بہتر ہے۔ کیونکہ آمریت میں تین طرح کا ظلم ہے۔ جبکہ شورائی نظام میں فقط ایک ظلم ہے۔ (اور وہ ہے امام معصوم (ع) کے حق کا غصب کرنا)
لہٰذا آمریت کو تبدیل کرنا درحقیقت ظلم کو محدود و پابند کرنا ہے۔ کیونکہ جمہوریت میں ظلم کے تین درجوں میں سے کم از کم دو درجوں کو روکا جا سکتا ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک فرد کو ہٹا کر کسی دوسرے فرد کو بٹھا دیا جائے جو پہلے سے کم ظالم ہو۔ (بلکہ یہ نظام اور سسٹم کی تبدیلی ہے)۔
دوسرے لفظوں میں چونکہ آئینی جمہوریت میں حکمران کے اختیارات صرف سماج کے نظم و ضبط اور حفظِ مملکت تک محدود ہوتے ہیں۔ جبکہ آمریت میں اختیارات لامحدود ہوتے ہیں۔ اس لئے تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ ان لامحدود اختیارات پر پابندی لگائی جائے۔
ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر حاکِم جائز و برحق ہو تو آئینی جمہوری نظام میں اس کے لئے اختیارات کا استعمال جائز اور یہ ولایت اس کے لئے قانونی ہے۔
لیکن اگر قانونی اور جائز حاکِم نہ ہو لیکن نظام جمہوری ہو تو اس کے لئے اختیارات کا استعمال ایسے ہی ہیں جیسے کسی وقف شدہ زمین کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے غیر متولِّی (5) کی مداخلت۔
اور متولِّی کی طرف سے اجازت مل جانے سے اختیارات کا یہ استعمال مکمل طور پر جائز اور قانونی بھی ہوجائے گا۔ (6)
فقہ کی اصطلاح میں ایسا نظام متنجس بالعرض ہے۔ (7) جس کو پاک کرنا ممکن ہے۔ اور آئینی نظام کی طہارت علماءِ شریعت کی اجازت سے حاصل ہو جاتی ہے۔
اور اگر اجازت مل جائے تو ایسی حکومت کو ہم امامت پر ظلم کرنے والی حکومت نہیں کہیں گے۔
جبکہ آمرانہ نظامِ حکومت ایسا ظلم ہے جس کی قباحت (8) اور برائی ذاتی ہے۔
اور اس کو جائز و قانونی بنانے کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ ایسے حاکِم کو علماء کی اجازت سے بھی قانونی نہیں بنایا جاسکتا۔
اس کی مثال اس وقف شدہ زمین/ ادارے کی ہے کہ جس پر کوئی شخص قبضہ کرکے اس کے وقف کی حیثیت کو ختم کرکے ذاتی استعمال میں لے آئے۔
آمریت وہ نجس العین ہے جس کو پاک کرنا کسی صورت ممکن نہیں۔ سوائے اس کے کہ اس کا استحالہ(9) ہو جائے، یعنی نظام حکومت ہی تبدیل کردیا جائے۔ جس طرح کسی وقف شدہ زمین کی بحالی کے لئے عدالت بیلف (Bailiff) مقرر کرتی ہے۔اسی طرح کی ایک کونسل مقرر ہوجائے جو حکومت پر نظارت قائم کرکے اس کے اختیارات کو محدود کرے۔ اور اس کو تجاوز و من مانی سے روکے اور بیت المال کو ضائع ہونے سے بچائے۔
جیسے متنجس بالعرض کو پانی سے پاک کیا جاتا ہے۔ (ایسے ہی آمریت کو مشاورتی کونسل کے ذریعے پاک کرنا ضروری ہے)۔
اس مقام پر مناسب ہے کہ مؤلف اپنا ایک خواب ضبطِ تحریر میں لے آئے۔ وہ خواب جو اس خادم نے انہی ایام میں دیکھا ہے ۔
چند روز قبل عالَمِ رؤیا میں مرحوم حاجی میرزا خلیل (طاب ثراہ) کے نواسے آیت … حاجی میرزا حسین تہرانی (قدس سرہ)(10) کی خدمت میں شرفیاب ہوا۔
خادم کو خواب میں پتا چلتا ہے کہ میرزا وفات پاچکے ہیں اور میں نے ان سے موت، عالَمِ برزخ اور آخرت کے بارے میں چند سوالات کئے۔
اور ان سے عبا (ردا) عنایت کرنے کی درخواست کی۔ میرزا حسین تہرانی نے میری درخواست کو قبول کرنے سے گریز کیا اور موت کے مراحل سے متعلق سوال کا جواب بھی نہیں دیا۔
لیکن امام زمانہ (عج) کی نیابت میں چند دوسرے سوالات کے جوابات عنایت کئے۔ پھر میں نے آئینی جمہوریت کی تحریک (تحریک مشروطہ) کے متعلق سوال کیا۔
تو میرزا تہرانی نے جواب دیا کہ “مشروطہ کی مثال گندے ہاتھوں والی اس سیاہ فام کنیز جیسی ہے جس کے ہاتھ دھلوا دئیے جائیں۔”
خواب یہاں تک ہی تھا۔ غور کیجئے کہ کتنی مناسب اور جامع تشبیہ ہے جس کو سہل ممتنع کہنا چاہیے۔ (11)
سیاہ فام کنیز اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حکومت اصل میں امام (ع) کا حق ہے۔ جس کو لوگوں نے چھین لیا۔ ہاتھ کا گندگی سے آلودہ ہونا اشارہ ہے کہ حق امام کے حق کو غصب کرنے کے ساتھ ساتھ یہ حاکِم، حقوق العباد کو بھی غصب کرتے ہیں۔ جبکہ ہاتھ کا دھونا اشارہ ہے کہ اس غصبِ زائد کو ختم کیا جائے۔ آئینی جمہوریت کی تحریک (مشروطہ) بھی گویا حاکم کے ہاتھ دھلانے کے مترادف ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ چونکہ شہنشاہیت یا آمریت کو پابند و محدود کرنا امت مسلمہ کا متفق علیہ مسئلہ ہے۔ اور اہم ترین شرعی ذمہ داری اور دین اسلام کی آبرو ہے۔
اور جیسا کہ ایران کی موجودہ صورتحال ہے کہ مقام حکومت غاصبین کے پاس ہے۔ تو یہ بات مذہب امامیہ کی ضروریات میں آجاتی ہے کہ آمریت کوتبدیل کیا جائے۔ اسکی وجوہات کی طرف مختصر اشارے کئے جا چکے ہیں۔ دوسری طرف یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تحت بھی ضروری ہے اور مسلمانوں کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کے لئے بھی یہ امر ضروری ہو جاتا ہے۔
اور اگر مندرجہ بالا امور سے چشم پوشی کرلی جائے تو بھی یہ بات تاریخِ عالَم سے آگاہ تمام اہل دانش و سیاست پر واضح ہے کہ اسلام کے قرنِ اول کے پہلے نصف میں جس طرح تیز رفتار ترقی ہوئی، یہ سب حکومت کے شورائی نظام اور اسلامی سماج پر مساوات و حریت کے اصولوں کے نافذ ہونے کا نتیجہ تھا۔ کہ جس میں خلیفہ عام مسلمانوں کے برابر سمجھا جاتا تھا۔
اسی طرح یہ بات بھی واضح ہے کہ مسلمانوں کا زوال اور یورپی ممالک کا اسلامی ممالک پر قابض ہوجانا اور ان ممالک کے ثروت و دولت کا سامراجی ممالک کی طرف منتقل ہونا، مسلمانوں کا غلام و بندہ بن جانا، آمریت کا نتیجہ ہے۔ جس میں حکومت اپنی سماجی اور شرعی ذمہ داریوں سے غافل ہوچکی ہے۔
اور اگر امت مسلمہ بیدار نہ ہوئی۔ اور فراعنۂ وقت کی غلامی کرتی رہی تو ان کی حالت افریقا اور ایشیا کے ان ممالک جیسی ہوگی جو ابھی تک سامراجی ممالک کے قبضے میں ہیں۔ اور ان کو خود مختاری اور آزادی حاصل نہیں ہو سکے گی۔
بلکہ شاید زیادہ دیر نہ لگے اور ان کی حالت اندلس (سپین و پرتگال) کے مسلمانوں جیسی ہو جائے۔ جہاں مسلمان، جبراً مسیحی بنائے گئے، مساجد کو کلیسا بنا دیا گیا اور اذانوں کی جگہ ناقوس نے لے لی۔ اور اسلامی شعائر کی جگہ زنار نے لے لی۔
ملت ایران کے ساتھ بھی یہی ہو سکتا ہے بلکہ شاید ان کی مادری زبان بھی باقی نہ رہے۔
چہ بسا ایران میں قائم امام علی رضا (ع) کا روضہ مبارک بھی نصرانیوں کے ہاتھوں پائمال ہوتا نظر آئے۔ (اللہ تعالی مسلمانوں کو اس بد بختی سے بچائے اور ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑیں)۔
یہ خدشات و خطرات بڑے واضح ہیں۔
بلکہ یہ خطرہ بھی ہے کہ ایران کے شمالی اور جنوبی ہمسائے ایرانی مملکت کو تقسیم کر کے اس کا بٹوارہ کر لیں۔ (12)
کہ ہمیں دنیا کی تاریخ میں اس قسم کی بے شمار مثالیں نظر آتی ہیں۔
بنا بر این بدیہی امر ہے کہ آمریت و شہنشاہیت کو تبدیل کر کے عادلانہ آئینی حکومت قائم کی جائے۔ کہ یہی امر مذکورہ امور کی حفاظت کے علاوہ آبروئے اسلام کی حفاظت اور کفار کے تسلط سے بچنے کا واحد ذریعہ ہے۔
اس لئے موجودہ دور میں یہ اہم ترین فرائض میں سے ہے کہ آمریت کو آئینی جمہوریت میں تبدیل کیا جائے۔
جاری ہے۔
حواشی وحوالے:
1: فقہ میں نہی از منکر واجبات میں سے ہے۔ نہی از منکر کا مطلب ہے ممکنہ حد تک برائیوں سے روکنے کی کوشش کرنا۔ فقہ میں اس کے مختلف درجات ہیں۔ اور اس کی شرائط بھی ہیں۔ تفصیل کے لئے فقہی کتب کا مطالعہ فرمائیں۔
2: امور حسبیہ کی دو قسمیں ہیں
جزئی امور؛ جیسے اختلافات اور جھگڑوں کو نمٹانا۔ لا وارث کی سرپرستی کرنا۔ دوسرے لفظوں میں وہ امور جن کا تعلق قضاوت (عدالت) سے ہے۔
کلی؛ دوسرے وہ امور جن کا تعلق ملک و نظام چلانے سے ہے۔ جیسے ٹیکس کی وصولی، فوج کی تشکیل وغیرہ۔
علامہ نائینی یہاں یہ فرما رہے ہیں کہ امور حسبیہ جزئیہ تو یقینی طور پر علماء و مجتہدین کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ اور اس حوالے سے شیعہ امامیہ کے فقہاء میں کوئی اختلاف نہیں۔ جبکہ امورحسبیہ کلیہ کے حوالے سے اختلاف رائے موجود ہے۔
ولایت مطلقہ فقیہ کا نظریہ امور حسبیہ کلیہ پر مجتہدین کی ولایت کا نظریہ ہے۔ بہت کم شیعہ فقہاء اس کے قائل ہیں۔ اور اکثر اس کو تسلیم نہیں کرتے۔
3: عرض مترجم: علامہ نائینی کا اشارہ اس طرف ہے جس کو موجودہ عدالتی نظام میں بیلف (Bailiff) کہا جاتا ہے۔
4: عرض مترجم: شیعہ امامیہ کے نزدیک حکومت امام معصوم(ع) کا حق ہے۔ لہذا حکومت پر امام کے علاوہ کسی اور کا بیٹھنا امام کے حق میں ظلم شمار ہوتا ہے۔
5: عرض مترجم؛ متولِّی کسی وقف شدہ زمین یا ادارے کے شرعی و قانونی منتظم/ مہتمم/ نگران/ٹرسٹی کو کہتے ہیں۔
وقف کا انتظام متولِّی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن اگر متولی اس کو وقف کے مقاصد کے خلاف استعمال کرے تو یہاں غیر متولِّی بھی مداخلت کرکے اس کو روک سکتا ہے۔
6: عرض مترجم؛ علامہ نائینی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حاکِم امام معصوم (ع) یا اس کا نائب ہو تو اس کی حکومت جائز اور قانونی ہے۔ ورنہ ناجائز اور غیر قانونی، اسی طرح اگر نظام جمہوری اور آئینی ہو اور حاکِم، عام انسانوں کی مرضی سے منتخب ہو اور نظامِ حکومت چلانے میں عام لوگوں کے حقوق اور ان آراء کی پابندی کرے اور اس کو امام یا نائبِ امام کی اجازت بھی حاصل ہوجائے تو وہ حاکم بھی جائز اور قانونی حاکِم ہے۔
7: عرض مترجم؛
فقہ کے باب طہارت میں نجاست کے حوالے سے دو اصطلاحیں ہیں۔ ایک نجس العین اور دوسری متنجس بالعرض۔ نجس العین وہ چیزیں ہیں جو بالاصالہ نجس ہیں اور کبھی پاک نہیں ہوسکتیں۔ جیسے خون، شراب، پیشاب، پاخانہ، و غیرہم۔
متنجس بالعرض وہ چیز ہے جو اصل میں پاک ہے لیکن کسی نجس چیز کے لگ جانے سے نجس ہوجائے۔ اس کو متنجس بالعرض کہتے ہیں۔ جیسےکوئی کپڑا خون لگنے سے ناپاک ہو جائے تو اس کو پانی وغیرہ سے پاک کرنا ممکن ہے۔ طہارت کے تفصیلی احکام کے لئے فقہ کی کتب کا مطالعہ کیا جائے۔
8: obscenity or ugliness
9: استحالہ بھی فقہ کی اصطلاح ہے۔ استحالہ کا مطلب ہے کسی چیز کی جنس تبدیل ہوجانا۔ جیسے کتا نمک کی کان میں گر کر نمک بن جائے تو اس کو استحالہ کہتے ہیں۔
10:عرض مترجم:
آیت اللہ میرزا حسین تہرانی ان چار شیعہ مراجع/مجتہدین میں سے تھے۔ جنہوں نے تحریک مشروطہ کا بھرپور ساتھ دیا۔ آیت اللہ تہرانی نجف کے علماء کے ھمرکاب تھے۔ اور جب شیخ فضل الله نوری نے محمدعلی شاہ قاجار کا ساتھ دیتے ہوئے جمہوریت کی تکفیر کی تو اس وقت میرزا تہرانی نے جمہوریت کا دفاع کیا۔
محمد علی شاہ نے پارلیمنٹ پرحملہ کے حق میں فتویٰ حاصل کرنے کیلئے نجف میں موجود مراجع تقلید کو خطوط لکھے، جن میں بابیوں اور دیگر غیر مسلموں کی سازشوں کا خوف دلا کر حمایت کی درخواست کی گئی تھی۔ تاہم، آخوند خراسانی، مرزا تہرانی اور مرزا عبداللہ مازندرانی نے جمہوریت کے حق میں فتوے دئیے اور شاہ کو معاشرے کے حالات کو بہتر بنانے اور نوآبادیاتی مداخلت کے خلاف ملک کا دفاع کرنے کے لیے آئینی فریم ورک کے اندر کام کرنے کا مشورہ دیا۔
میرزا تہرانی 1908ء میں فوت ہوئے۔
11:عرض مترجم؛
سہلِ ممتنع (Inimitably Easy)، ادب میں یہ اصطلاح ایسے شعر کے لئے استعمال کی جاتی ہے جو اس قدر آسان لفظوں میں ادا ہوجائے کہ اس کے آگے مزید سلاست کی گنجائش نہ ہو۔ یہاں مؤلف نے سیاہ فام کنیز کی مثال کو سہل ممتنع کہا ہے۔ کیونکہ ان کے خیال میں اس سے زیادہ واضح مثال ممکن نہیں۔
11:عرض مترجم؛
1907ء میں سینٹ پیٹرز برگ کے مقام پر روس اور برطانیہ کے درمیان ایک قرارداد منعقد ہوئی۔ جس کی رو سے ایران کی سرزمین کو روس اور برطانیہ نے آپس میں تقسیم کرلیا تھا اور اس کا شمالی حصہ روس کے پاس اور جنوبی حصہ برطانیہ کے پاس چلا گیا تھا۔
برطانیہ اور روس کی فوجیں بھی ایران میں داخل ہوگئی تھیں۔ لیکن 1917کے فروری انقلاب کے بعد کرنسکی نے فوجیں واپس بلا لیں۔
اکتوبر 1917ء کے بالشویک انقلاب کے بعد لینن نے اعلان کیا کہ وہ ایران پر قبضہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ اور سرخ فوج کے سربراہ ٹراٹسکی نے سرکاری بیان جاری کیا کہ زار شاہی نے ایران پر جتنے معاہدے مسلط کئے تھے سب کالعدم کئے جاتے ہیں۔
علامہ نائینی کا اشارہ اسی طرف ہے۔ وہ اس خدشے کا اظہار کررہے تھے کہ اگر آمریت باقی رہتی ہے تو ایسے واقعات کی روک تھام ممکن نہیں۔ اور سامراجی ممالک ایران کا بٹوارہ کر کے اس کو اپنے درمیان تقسیم کر لیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply