تہذیب وتمدن/مبشر حسن

تہذیب کسے  کہتے ہیں‘ اس کے متعلق آج تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ اس کے متعلق ایک جامع تصور یہ ہے کہ ایک چیزہوتی ہے کسی قوم کے نظریاتِ زندگی اور تصوراتِ حیات یعنی اس کی آئیڈیالوجی۔ اسے اس قوم کا کلچر  کہا جاتا ہے۔ اور جن مخصوس شکلوں میں اس کلچر کی نمود ہوتی ہے۔ اسے اس قوم کی تہذیب۔(CIVILISATION) کہا جاتا ہے۔

اس تصور کے مطابق دیکھیے تو اسلام کا کلچر وہ مستقل اقدار ہوں گی جو وحی کی رو سے ملی ہیں اور قرآنِ کریم کے اندر محفوظ ہیں۔ یہ اقدارمستقل اور غیر متبدل ہیں لیکن ان کے مظاہر‘ مختلف ملکوں‘ مختلف زمانوں‘ اور مختلف ماحول میں مختلف ہوں گے۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو کسی خاص تہذیب کو ’’اسلامی تہذیب‘‘ نہیں قرار دیا جاسکے گا۔ تراش خراش‘ وضع قطع‘ رہنے سہنے کے طریق‘ بودوماند کے اند از‘ بشرطیکہ ان میں سے کوئی بات کسی مستقل قدر کے خلاف نہ جائے۔ اسلامی تہذیب کہلا سکیں گے ۔یا یوں کہیے کہ کلچر کو تو اسلامی کہا جا سکے گا‘ لیکن تہذیب اسلامی نہیں بلکہ مسلمانوں کی کہلائے گی۔۔۔ مثلاً مصری مسلمانوں کی تہذیب ‘ پاکستانی مسلمانوں کی تہذیب یا عباسی دور کی تہذیب‘ اندلسی مسلمانوں کی تہذیب وغیرہ وغیرہ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

البتہ ‘ قرآنِ کریم نے مستقل اقدار کے علاوہ‘ کچھ آدابِ معاشرت بھی بتا ئے ہیں ۔ مثلاً چیخ کر نہ بولو‘ اکڑ کر نہ چلو۔ ان کا اطلاق بھی ہر زمانے اور ہر ملک میں یکساں ہو گا۔
قرانِ کریم ‘ اقوام سابقہ کی تہذیبوں کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جو تہذیبیں غلط نظریاتِ زندگی (کلچر) پر مبنی تھیں وہ تباہ ہو گئیں۔ بقاء اور استحکام اس تہذیب کے لئے ہے جو صحیح نظریات کی مظہر ہو۔ یعنی جب تک کوئی قوم صحیح نظریاتِ زندگی کی حائل ہو گی‘ اس کی تہذیب درخشندہ رہے گی۔ جب وہ ان نظریات کو چھوڑ دے گی تو ان کی تہذیب رفتہ رفتہ ختم ہوجائے گی۔ مثلاً:۔
(1) جو قوم محض مادی نظریہ حیات کی قائل ہو‘ یعنی اس کا عقیدہ یہ ہو کہ زندگی محض اسی دنیا کی زندگی ہے۔ جسم کے فنا ہوجانے سے انسان کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ ان کے نزدیک‘ زندگی کا مقصد ‘ طبیعی زندگی کے لذائذ وحظائظ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ ان کی تہذیب کی مثال اس لہلہاتی کھیتی کی سی ہے جسے ایک طبیعی حادثہ خس وخاشاک کا ڈھیر بنا کر رکھ دے۔ یعنی اس میں وقتی اور ہنگامی خوشنمائی اور رعنائی تو ہوتی ہے لیکن ثبات ودوام اس کے حصے میں نہیں ہوتا۔ (10:24)
(2) جس قوم کا مسلک حیات‘ خانقاہیت(تصوف) ہو۔ یعنی وہ مادی جاذبیتوں کو قابل نفرت سمجھے‘ اور ان سے دور بھاگے‘ اس کی تہذیب (تصوف)ہو۔ یعنی وہ مادی جاذبیتوں کو قابل نفرت سمجھے‘ او ران سے دو ربھاگے‘ اسی کی تہذیب کا مآل بھی بے برگ وگیاہ بنجز مین کا سا ہوتا ہے۔ (18:7-8)
(3) جو قوم اپنی قوت کو‘ کمزوروں کے کچلنے کے لئے استعمال کرتی ہے‘ اس کی شان وشوکت کتنی ہی چکا چوند پیدا کر دینے والی کیوں نہ ہو‘ وہ تباہ ہو کررہتی ہے۔ (26:128-135) ۔ (26:146-152) خواہ وہ کتنی ہی صاحب عقل وبصیرت کیوں نہ ہو۔ (29:38)
(4) ظلم واستبداد کرنے والی قوموں کی تہذیب فنا آمادہ ہوتی ہے خواہ معاشی اعتبار سے وہ کتنی ہی خوشحال کیوں نہ ہوں۔ (28:58-59)
(5) سرمایہ دارانہ نظام پر مبنی تہذیب کا بھی یہی حشر ہوتا ہے۔ (7:48) ۔ (28:77-78)
(6) صحیح نظریہ زندگی پر مبنی تہذیب کی مثال ایسے خوشگوار درخت کی سی ہے جس کی جڑیں باتال میں ہوں اور شاخیں آسمان کی پہنائیوں میں جھولا جھول رہی ہون۔وہ ہر زمانے میں ثمر بار تہا ہے۔ اس کی شادابیوں میں کبھی فرق نہیں آتا۔ (13:35) ۔ (14:25)
اس کے برعکس‘ غلط نظریہ حیات پر استوار تہذیب اس درخت کی سی ہے جس کی جڑیں اوپر ہی اوپر ہوں اور اسے قطعاً ثبات و قرار نہ ہو۔ (14:26)
صحیح نظریہ حیات (مستقل اقدار) پر یقین رکھنے والی قوم کی تہذیب کو ثبات وقرار ہوتا ہے۔ ان کا حال بھی درخشندہ ہوتا ہے اور مستقبل بھی تابندہ۔ (14:27)
(7) غلط بنیادوں پر اٹھی ہوئی تہذیب ‘ زمانے کے تھپیڑوں سے خس وخاشاک کی طرح بہ جاتی ہے ۔ یا اُس کھوٹ کی طرح ضائع ہوجاتی ہے جو دھات کے تپانے سے جھاگ کی طرح اوپر آجاتا ہے۔
بقاء اور دوام صرف اس تہذیب کے لئے ہے جس کی بنیاد عالمگیر انسانیت کی نفع بخشی کے تصور پر ہو (13:17)
( غلط نظریات کی حامل اقوام کی عقل وبصیرت ‘ علم دفن‘ تدبر وتفکر‘ مال ودولت‘ قوت وحشمت‘ انہیں تباہی سے  نہیں بچا سکتے۔ (15:84) ۔ (26:207) ۔ (39:50) ۔ (40:82) ۔ (46:26)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply