رمضانی امبانی/یاسر جواد

غلاظت کے لوکل نام لینے کی بجائے shit کہنا اب رواج ہے، اسی طرح کام والی یا نوکرانی کو maid کہنا بھی عام ہو گیا ہے۔ اِس طرح ہم خود کو نسبتاً زیادہ شائستہ یا انسان دوست ثابت کر رہے ہیں ہوتے ہیں۔ ہمارے موجودہ گھر میں گزشتہ پانچ چھ  سال کے دوران متعدد نوکرانیاں آ چکی ہیں۔ صفیہ کے سات بچے (بیٹیاں) تھیں، نسرین کے چھے بچے (چار بیٹیاں، دو بیٹے) تھے۔ اس کے علاوہ شادی کے چھے سات سال میں مالی کے چار بچے، پینٹ والے کے سات بچے۔ یہ پانچ سے سات بچے اُن کی اوسط ہے۔

ان کی بیٹیاں زیادہ ہوتی ہیں جو آٹھ نو سال کی عمر میں ماؤں کے ساتھ کام کرنا اور جہیز کا سامان جمع کرنا شروع کرتی ہیں (جبکہ بیٹے مدرسوں میں پڑھتے ہیں)۔ لڑکیاں چودہ پندرہ سال کی عمر میں یہ وٹامن ای کے کیپسول کریموں میں ملا کر منہ گورا کرتی ہیں، سمارٹ فون بھی لے لیتی ہیں، کسی باجی کے دیے ہوئے کپڑوں سے فیشن بھی ہو جاتا ہے۔ رمضان اور دیگر موقعوں پر راشن کی اُمید بھی رہتی ہے۔ اٹھارہ بیس سال کی عمر میں کسی ویلڈر، چنگ چی چلانے والے لڑکے، مکینک، پلمبر وغیرہ کے ساتھ شادی ہو جاتی ہے اور بچے پیدا کرنے کا وہی ماں والا سلسلہ دوبارہ شروع ہوتا ہے۔ شوہر بھی اِن کے باپوں کی طرح نشے کرتے ہیں، یا معذور ہوتے ہیں یا کچھ تو دوسری شادی بھی کرتے ہیں۔ ان ’’کام‘‘ والیوں کا سب سے بڑا مشغلہ وفات  اور شادیوں پر جانا ہی ہوتا ہے۔ نند کا سسر فوت ہو جائے، یا اپنی خالہ، ساس کی بہن فوت ہو جائے یا شوہر کے کزن کی بیٹی، اِنھوں نے پانچ چھے دن قل، سوئم وغیرہ میں خرچ دینا ہوتے ہیں۔ مرد تو چالیس سال کی عمر میں بے کار ہو جاتے ہیں، جبکہ ان میں سے زیادہ تر خواتین تیس پینتیس سال کی عمر میں اپنی زندگی پوری کر چکتی ہوتی ہیں۔

آپ اِن سے بات کر کے دیکھیں تو رشک بھی آتا ہے اور غصہ بھی۔ رشک اس بات پر کہ وہ کس طرح زندگی کو محض فطری پیمانے پر جیتے ہیں۔ اور غصہ اِس بات پر کہ وہ محض فطرت کی سطح پر ہی جیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

دیکھا جائے تو ہماری ریاست بھی اِنھی ’’کام والیوں‘‘ جیسی ہے۔ اور ہمارا تصورِ خدا اور تصورِ کائنات بھی اِن سے مختلف نہیں۔ ان شاء اللہ، ماشاء اللہ، الحمدللہ، جزاک اللہ کی بوچھاڑ میں ہم اپنے دن گزارتے جاتے ہیں۔ ہمارے بیش تر اعلیٰ بیوروکریٹس کا تصورِ حیات اِن سے مختلف نہیں، البتہ درجات کا فرق ہے۔ حکومت کو بھی معلوم ہے کہ لوگوں کو کیا چاہیے! سبز رنگ کے تھیلے جن میں آٹا، تھوڑے سے چاول، سوجی، میدہ، اور دعائیں ہوں۔ ایک دو دن میں سبھی اپنے آپ کو امبانی ثابت کر رہے ہوں گے۔ زکوٰۃ اور صدقہ و خیرات بھوک کم نہیں کرتے ،بڑھاتے ہیں۔ صدقہ نوکرانیوں کی بیٹیوں کی طرح مزید احتیاج اور محرومی کو جنم دیتا ہے۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply