جو ڈر گیا،وہ مر گیا/غیور شاہ ترمذی

خوف/ڈر کو انگریزی میں Fear کہتے ہیں-
اس لفظ میں 4 حروف ہیں یعنی .F. E. A. R اور ان کو الگ الگ لکھیں تو 2 مختلف جملے بنا سکتے ہیں-

1 –
F = forget یعنی (بھول جاؤ)
E = everything یعنی (ہر چیز کو)
A = and یعنی (اور)
R = run یعنی (بھاگ لو)

2 –
F = face یعنی (مقابلہ کرو)
E = everything یعنی (ہر چیز کا)
A = and یعنی (اور)
R = rise یعنی (ابھر جاؤ)

یہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے کہ ڈر/ خوف سے اینزائٹی – anxiety یعنی (بے چینی، گھبراہٹ یا پریشانی) جیسے منفی جذبات پیدا ہوتے ہیں اور دماغی صحت سے متعلق دنیا بھر کے تمام ماہرین ان جذبات کو ہمیشہ بُری نظر سے دیکھتے ہیں کیونکہ کسی بھی شخص کے لئے ان کے نتائج غیر فطری اور تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ہم میں سے اکثر نے یہ آزمایا ہوا ہو گا کہ کوئی کام کرنے سے پہلے ہی دل میں اگر ناکامی کا ڈر ہو تو کامیابی کے امکان کافی کم ہو جاتے ہیں لیکن جب ہم وہی کام ایک سے زیادہ مرتبہ سرانجام دے لیتے ہیں تو ہمارے اندر سے اُس کے بارے میں تمام خود/ڈر نکل جاتا ہے۔

اب آتے ہیں اصل مدعا کی طرف جو یہ ہے کہ پاکستان نے امسال نومبر تک غیر ملکی بنکوں اور اداروں کے تقریباً 27.4 ارب ڈالرز واپس کرنے ہیں جن میں سے 23.6 ارب ڈالرز تو قرضوں کی اصل رقم پر محیط ہے تو باقی کا 3.2 ارب ڈالرز ان پر واجب الادا سود کی مد میں دینا پڑے گا۔ پاکستان اس وقت کُل 124 ارب ڈالرز کا مقروض ہے جو پاکستان کی مجموعی پیداوار کا 43% بنتا ہے اور بظاہر ہمارے پاس اس وقت کوئی ایسے ذرائع آمدن نہیں ہیں جن کے ذریعہ ہم اتنی بڑی رقم کی ادائیگی کا بندوبست کر سکیں۔اب اس صورتحال کے تحت ہم ڈر کے مارے تھر تھر کانپ بھی سکتے ہیں اور چاہیں تو انقلابی اقدامات کے ذریعہ اس بڑی رقم کا بندوبست بھی کر سکتے ہیں۔

اس ڈر اور خوف کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں پورے ملک کو ٹیکس نیٹ میں بھی لانا پڑے گا اور ایران/افگان سرحدوں سے جاری اسمگلنگ کا راستہ روک کر اسے بھی باقاعدہ معاشی راستے پر لانا پڑے گا۔ پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا مسئلہ بجلی کی کمپنیوں کو کیپیسٹی چارجز کی ادائیگی ہے۔ عالمی قوانین اور معاہدوں کے مطابق اپ اس کے پابند ہیں کہ یہ کیپیسٹی چارجز ہر حالت میں بھی آئی پی پیز کو دئیے جائیں لیکن یہ معاہدے ہماری اقتصادی حالت کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجوہات میں ٹرانسمیشن لائنز کا بوسیدہ اور کم ہونے کے ساتھ ساتھ بجلی چوری اور پنجاب میں عوام کا سولر انرجی کی طرف تیزی سے منتقل ہونا ہے۔

ان دونوں بڑے مسائل کا حل بالکل غیر روایتی طریقے سے اور خوف / ڈر کو پسِ پشت ڈال کر ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر گولڈن شیک ہینڈ کی طرح بجلی بنانے والی ان پرائیویٹ کمپنیوں کو پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ میں لیا جائے اور انویسٹرز کو ان کی انویسٹمنٹ کے عوض اسلام آباد کے آس پاس زمینیں دی جائیں جن کو وہ 2/3 سالوں ڈیویلپ کر کے نئے شہر بنانے کے پابند ہوں۔ ان نئے بننے والے ہائی فائی شہروں میں صرف اوور سیز پاکستانی ہی زمین خرید سکیں جن کی ریمیٹینس remittances بھی لیگل چینلز یعنی بنکوں سے پاکستان آئیں تاکہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے بڑھیں اور ہم کیپسیٹی چارجز، سرکلر ڈیبٹ اور قرضوں کی اس بڑی ادائیگیوں جیسے مسائل کا حل بھی نکال سکیں گے۔  نیز ان سب فوائد کے ساتھ ساتھ ہمارے عوام پر مہنگی بجلی کے غیر ضروری بوجھ کو بھی خاطر خواہ حد تک کم کیا جا سکے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

شاید آپ کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ ایسا کرنے میں کس ڈر اور خوف کا سوال ہے تو عرض یہ ہے کہ پچھلے 76 سالوں کی سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ حکمران پاکستان میں کوئی بھی ہو لیکن امریکہ جب اپنے کسی مطلب کے لئے پاکستان کے حکمرانوں کا ہاتھ مروڑتا رہا تو حکمران ڈر کے مارے تابعداری کا رول ادا کرتے رہے ہیں۔ اس وقت امریکہ ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ پاکستان اپنے معاشی بحران سے باہر آئے کیونکہ ایسا ہونے سے پاکستان میں چین کا اثر و نفوذ بڑھ جائے گا اور سی پیک سمیت گوادر پورٹ اور ایران گیس پائپ لائن مکمل فعالیت کر لیں گے۔اسی لئے پاکستان کو اگر معاشی خود کفالت کے راستہ پر گامزن ہونا ہے تو امریکہ کے سامنے کھڑا ہونا پڑے گا اور اُسے یہ کہنا پڑے گا کہ ’’انکل سام، اپنے کام سے کام رکھو اور ہمارے اندرونی معاملات میں ہرگز کوئی مداخلت نہ کرو‘‘۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply