وہ بھی جنسی ہراسگی کا شکار ہوا۔۔مرزا مدثر نواز

شمشاد (فرضی نام) انجینئرنگ کا طالبعلم تھا‘ شریف النفس‘ شوخ‘ چنچل‘ ہنستا مسکراتا‘ شرمیلا‘ خوبصورت نظر آنے کا شوقین‘ سب کچھ جانتے بوجھتے اور سمجھتے ہوئے نسوانی خصوصیات ظاہر کرنے والا۔ ہو سکتا ہے کہ زنانہ ماحول میں زیادہ وقت گزارنے سے یہ خصوصیات اس کی طبیعت پر غالب آ گئی ہوں، لیکن ظاہری طور پر کسی بھی قسم کی برائی سے مبرّا تھا۔ شوخ و چنچل طبیعت کی وجہ سے اکثر دوستوں و ہم جماعتوں کے بیہودہ مذاق کا نشانہ بھی بنتا تھا لیکن ہنس کر ٹال دیتا تھا۔ بیس کے پیٹے میں ہونے کے باوجود وہ کئی دفعہ جنسی ہراسگی کا شکار ہوا۔ ایک دفعہ وہ شام کوصدر بازار سے اپنی اقامت گاہ کی طرف جانے کے لیے سڑک کے ساتھ پیدل گزر گاہ پر چل رہا تھا کہ سائیکل پر ایک شخص اس کے ساتھ ہو لیا۔ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد اس شخص نے شمشاد کو کہا کہ آپ کچھ دیر میرے ساتھ سڑک کنارے لگی جھاڑیوں میں آئیں۔ شمشاد ہکا بکا رہ گیا اور پریشانی کے عالم میں اسے کہا کہ میں ایسا نہیں ہوں اور گبھراہٹ میں تیز تیز چلنا شروع کر دیا۔ سڑک پر ٹریفک ہونے کی وجہ سے وہ شخص دست درازی سے باز رہا لیکن رستے میں اسے مسلسل تنگ کرتا رہا اور مختلف قسم کی آفرز کرتا رہا تاوقتیکہ شمشاد اپنی اقامت گاہ میں داخل ہو گیا۔

دلدار (فرضی نام) ایک ادارے میں ملازم ہوا اور محکمانہ تربیت حاصل کرنے لگا۔ اس وقت اس کی عمر بیس کے آس پاس ہو گی اور وہ ایک انتہائی خوبصورت نوجوان تھا۔ وہ اور اس کے دوسرے ہم جماعت گو اس وقت عملی زندگی میں داخل ہو چکے تھے لیکن پھر بھی اسے اپنے ہم جماعتوں سے چھیڑ چھاڑ کا سامنا رہتا تھا۔ ایک دن تنگ آ کر کہنے لگا کہ یار یہ کیا ہے‘ جب میں پرائمری سکول میں پڑھتا تھا تو وہاں بھی میرے ہم جماعت مجھے جسمانی طور پر چھیڑتے رہتے تھے‘ مڈل سیکشن میں بھی وہی حالات رہے‘ میٹرک اور انٹر میں بھی مجھے اسی رویے کا سامنا رہا اور اب پروفیشنل کلاس میں بھی کچھ نہیں بدلا۔
؎ اچھی صورت بھی کیا بری چیز ہے
جس نے ڈالی‘ بری نگاہ ڈالی

مناسب (فرضی نام) ملازمت کے سلسلے میں کسی دوسرے شہر میں کچھ لڑکوں کے ساتھ ایک مکان میں رہتا تھا۔ وہاں پر ایک لڑکا اسے مسلسل تنگ کرتا تھا‘ پہلے پہل تو مناسب نے نظر انداز کیا‘ اس کے بعد اس کی اصلاح کی کوشش کی‘ اسے سمجھاتا رہتا اور ایسی کتابیں اور کتابچے لا کر دیتا جس میں ہم جنس پرستی جیسے قبیح فعل کی ممانعت کی گئی ہوتی لیکن کوئی  فائدہ نہ ہوا۔ پھر مناسب نے سختی سے بھی کام لیا اور اس لڑکے کے ساتھ کئی دفعہ جھگڑا بھی کیا لیکن وہ باز نہ آتا تھا۔ آخر تنگ آ کر مناسب نے وہ مکان چھوڑ دیا اور کسی دوسری جگہ رہنا شروع کر دیا۔

ایسے واقعات اور رویے ہمارے معاشرے کی ایک بدترین حقیقت ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پر میِ ٹو مہم کا آغاز ہوا تو پوری دنیا میں با ہمت خواتین نے کسی بھی مرحلے پر اپنے ساتھ پیش آنے والے جنسی ہراسانی کے واقعات پر کھل کر بات کی جس کی بدولت بڑے بڑے نامور و طاقتور پردہ نشینوں کے  چہرے  کھل کر سامنے آئے ۔ ان واقعات سے کسی بھی معاشرے میں افراد کی ذہنی بیماری و پسماندگی‘ اخلاقی پستی و بے راہ روی‘ استحصال اور صنف نازک کو روز مرہ زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

لیکن یہ معاملہ صرف خواتین کی حد تک محدود نہیں بلکہ نوجوانوں کو بھی ذہنی بیماروں کی طرف سے بُرے سلوک کا سامنا رہتا ہے۔ آج کے دور میں جہاں بچیوں کی حفاظت انتہائی ضروری ہے وہاں بچوں کو بھی درندوں سے محفوظ رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق بچوں سے جنسی زیادتی میں زیادہ تر قریبی رشتہ دار اور گھریلو ملازمین ملوث ہوتے ہیں جن پر والدین ضرورت سے زیادہ اعتماد کر بیٹھتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو سمجھائیں کہ سکول‘ مدرسہ‘ گلی‘گھر میں کوئی بھی انہیں نامناسب طریقے سے نہ چھوئے اور اگر کوئی ایسا کرے تو انہیں کیسے مزاحمت کرنی ہے اور فوراً  اپنے والدین کو مطلع کرنا ہے اور ایسا کرنے یا بتانے میں وہ ذرا بھی جھجک کا مظاہرہ نہ کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بچپن میں بچوں کے ساتھ پیش آنے والے برے سلوک کا ان کے ذہن پر گہرا اثر پڑتا ہے جو تاحیات ان کی شخصیت کو متاثر کرتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے برطانوی نشریاتی ادارے پر ایک شخص کی کہانی بیان کی گئی تھی جس کے والدین ملازمت کرتے تھے اور وہ بچپن میں گھریلو ملازمین کے ساتھ گھر پر ہی رہتا تھا۔ کافی  عرصہ تک وہ ملازمین کی بدسلوکی کا شکار بنتا رہا‘ اس دوران کئی ملازمین تبدیل بھی ہوئے لیکن ہر نیا آنے والا ملازم پرانے جیسی بری عادات کا حامل ہوتا تھا۔ اس بدسلوکی نے اس شخص کے ذہن پر ایسے نقوش چھوڑے جن سے اس کی اب تک کی ساٹھ سالہ زندگی بشمول ازدواجی زندگی بے حد متاثر ہوئی۔ لہٰذا بچوں کی حرکات و سکنات اور روزمرہ کے معمول میں آنے والی تبدیلیوں کو سنجیدگی سے لیں اور انہیں اپنی بھرپور توجہ کا احساس دلائیں تا کہ وہ انسان نما بھیڑیوں سے محفوظ رہ سکیں۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply