چنن پیر کا میلہ/ناصر خان ناصر

سرائیکی بیلٹ کے عوام میں سادگی، کم فہمی، جہالت اور کم علمی کی بدولت ضعیف العقیدگی حد سے زیادہ موجود ہے۔ طرح بہ طرح کی غلط روایات، فضول رسمیں، الٹے سیدھے شگن شگون، بے تکے رواج یہاں کے عوام میں عام طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

گیارہ فروری سے دس اپریل تک چولستان میں چنن پیر کا بہت بڑا میلہ لگتا ہے۔ یہ جگہ یزمان سے نزدیک پڑتی ہے۔ صحرا کے بیچوں بیچ پیلہوں (جال) کے چند بڑے بڑے درختوں کے نیچے ایک اونچے ٹیلے پر پکی مٹی کی بڑی بڑی سِلوں سے چُنا ہُوا ایک احاطہ چنن پیر کی آخری آرام گاہ ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ یہاں تک ان محترم کا پیچھا ہندو فوج نے کیا تھا اور یہاں پر وہ ان سب کی نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے۔

چنن پیر سے اس سارے خطے میں لوگ باگ بے پناہ محبت اور اندھی عقیدت رکھتے ہیں۔ وہ لوگ جن کی اولاد نہ ہوتی ہو، یا بچے ہو جائیں مگر سدا بیمار رہتے ہوں، یہاں آ کر منت مان لیتے ہیں۔ یہاں آ کر کوئی  رنگدار دھاگہ یا دهجی قدیم درخت پر بطور منت باندھ جاتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیا جاتا ہے کہ بچے کی ولادت ہونے پر یا اس کے تندرست ہونے پر ماں باپ بچے کو یہاں لا کر مرقد اقدس پر “پینگھا یا جھولا (پالنا) ” چڑهائیں گے۔

بھارت میں بے شمار مندروں اور مقابر میں اسی قسم کی رنگ دار دھاگوں کی دھجیاں باندھ کر چندن کا پلنا چڑھانا ایک بہت عام بات ہے۔ روہی میں بھی بالکل اسی طرح بچے کی پیدائش یا تندرستی کے بعد اسے یہاں لا کر ایک رات گزاری جاتی ہے۔

ایسی ضعیف اعتقادی پوری ریاست بہاولپور میں اور خصوصاً  دیہی علاقوں میں اب تک بہت عام ہے۔ چنن پیر کے میلے میں دور دور سے لوگ آتے ہیں اور اس طرح مقامی لوگوں کی تجارت ہو جاتی ہے۔ بچپن میں ہم اس میلے میں جا چکے ہیں۔

ان میلوں ٹھیلوں کا اصل مقصد دیہی آبادی کے لئے سستی تفریح، تجارت اور اپنی ثقافت کے رنگین رنگوں رونقوں کو برقرار رکھنا ہی ہے۔ نجانے کتنے بہت سارے مقامی لوگوں کے روزگار ان میلوں سے جڑے ہوئے ہیں جو چھوٹی چھوٹی دوکانیں ایسے میلوں ٹھیلوں میں لگا کر اپنا رزق حلال کماتے ہیں۔ میلے میں گڑ کی جلیبیاں، پلاسٹک کے کلپ، چوڑیاں، لکڑی کے اونچے اونچے چکر کھاتے جھولے، مداری کے کرتب، سانپ اور نیولے کی لڑائی ، سپیرے کے سانپوں کے کرتب، لوکل عجیب و غریب انوکھے فوک سازوں پر دھیمے سروں میں دیہاتی فوک سنگرز کے سحر انگیز کمالات دیکھنے کو ملتے ہیں۔

یہاں موت کا کنواں بھی موجود ہوتا ہے اور ایک شیشے کے باکس میں لیٹی ہوئی  انسانی سر والی لومڑی بھی دکھائی  جاتی ہے جو بقول ان کے محض پھول سونگھ کر زندہ رہتی ہے۔ (یہ دراصل آئینے کا ٹرک ہوتا ہے۔ آئینے کے پیچھے ایک عورت اپنا چہرہ آگے کر کے بیٹھ جاتی ہے اور چھوٹے سے سوراخ کے سامنے لومڑی کا دھڑ رکھ دیا جاتا ہے۔ اس لومڑی کی دم کو پتلی سی نہ نظر آنے والی تار کے ساتھ ہلایا جاتا ہے)

اس جیسی متحیر کن عجیب و غریب بہت سی اشیاء ایسے میلوں میں رکھی ہوئی  ہوتی ہیں، انہی ننھی منی بے ضرر خوشیوں کا نام ہی میلہ ہوتا ہے۔ بچپن میں دیکھا میلہ ہر انسان کو عمر بھر یاد رہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں اس میلے میں کھائی  گئی  تیل میں تلی ہوئی  گڑ کی جلیبیاں اب تک یاد ہیں۔ اس قسم کے میلوں میں طوائفیں اور کھسرے بھی کسی لکڑی کے سٹیج پر دھمالیں ڈالتے، رقص کرتے نظر آتے ہیں۔ دور دور کے دیہاتوں سے زائرین کی ٹولیاں ڈھول ڈھماکوں کے ساتھ جھنڈے لہراتی، ناچتی گاتی ہوئی  آتی ہیں۔ رات بھر کئی  غلط قسم کی خرافات بھی چلتی رہتی ہیں۔ کئی  لوگ نشہ آور ادویات، چرس افیم اور بھنگ بھی گھوٹ گھوٹ کر پیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
مزار شریف کے آس پاس دور دور تک لوگ کھلی فضا میں ننگی ریتلی زمین پر ہی چادریں بچھا کر سو جاتے ہیں۔ صبح سویرے اٹھ کر پیر صاحب کو سلام کر کے واپسی کا سفر اختیار کیا جاتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply