لیبیا میں اسرائیل کے اہداف۔۔۔جعفر قناد باشی

معمر قذافی کے دور میں لیبیا اسرائیل سے مقابلے کے دعویداروں میں سے ایک تھا اور ہمیشہ سے اس کی یہ کوشش رہتی تھی کہ خود کو اسرائیل مخالف ممالک کی پہلی صف میں ظاہر کرے۔ لہٰذا ایک محاذ تشکیل پایا اور تمام اسرائیل مخالف عرب ممالک اس میں شریک ہو گئے۔ یہ اسرائیل مخالف محاذ کہلانے لگا جس میں لیبیا بھی شامل تھا۔ اس محاذ کی تشکیل میں معمر قذافی نے نمایاں کردار ادا کیا اور وہ اس کے بانیوں میں شمار ہوتے تھے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران نے بھی اس محاذ میں شرکت کی کوشش شروع کر دی لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمل کے میدان میں معمر قذافی نے اسرائیل کے خلاف کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا جبکہ وہ فلسطینی مجاہد گروہوں سے بھی اچھے تعلقات استوار کرنے میں ناکام رہے۔ معمر قذافی فلسطینی گروہوں سے مستحکم تعلقات استوار نہ کر سکے جس کے باعث ان کے درمیان دوطرفہ تعاون کا بھی فقدان رہا۔

لہٰذا فلسطینی رہنما بہت کم لیبیا سفر کیا کرتے تھے۔ دوسری طرف معمر قذافی عرب لیگ میں بھی اور افریقہ یونین میں بھی مسلسل عرب ممالک پر اسرائیل سے سازباز کا الزام عائد کیا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے معمر قذافی اور مصر کے انقلابی صدر جمال عبدالناصر میں دوستی بڑھنے لگی۔ معمر قذافی یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ وہ جمال عبدالناصر کا راستہ زندہ اور جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح اسلحہ اور فوجی سازوسامان کے مسئلے میں مشرقی طاقتوں پر انحصار کے باعث لیبیا اسرائیل مخالف ممالک میں شمار کیا جاتا تھا۔

لیبیا سے متعلق اسرائیلی پالیسی شمالی افریقہ کے دیگر مسلم ممالک سے متعلق اسرائیلی پالیسی جیسی ہی ہے۔ اسرائیل نہیں چاہتا لیبیا میں ایسی فضا معرض وجود میں آئے جس کے تحت فلسطین کی حمایت میں اسلامی گروہ ابھر کر سامنے آئیں کیونکہ 65 لاکھ کی آبادی پر مشتمل اس اسلامی ملک میں اسرائیل کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے اور لیبیا کے مسلمان اسرائیل مخالف ہیں جس کے باعث لیبیا میں فلسطینی بھائیوں کی حمایت اور اسرائیل کے خلاف لڑنے کیلئے اسلامی جہادی گروہوں کی تشکیل کا زمینہ پایا جاتا ہے۔ لہٰذا ہمیشہ اسرائیل کی یہ کوشش رہی ہے کہ لیبیا میں ایسے حالات پیدا نہ ہوں جو ان گروہوں کی تشکیل کیلئے مناسب ماحول فراہم کریں۔

لیبیا میں سابق ڈکٹیٹر معمر قذافی کے خلاف عوامی تحریک شروع ہونے کے بعد اسرائیل کو یہ پریشانی لاحق ہو گئی کہ کہیں قذافی حکومت کے پاس موجود میزائل اور دیگر فوجی سازوسامان اسرائیل مخالف عناصر کے ہاتھ نہ لگ جائے، لہٰذا اسرائیل نے امریکہ کی سربراہی میں نیٹو فورسز کو مجبور کیا کہ وہ معمر قذافی کے تمام اسلحہ کے ذخائر نابود کر دیں۔ اسرائیل ویسے بھی گذشتہ کئی عشروں سے لیبیا کی میزائل طاقت ختم کرنے کے درپے تھا۔ معمر قذافی کے بعد دو اور ایسے ایشوز تھے جو اسرائیل کی نظر میں بہت اہم تھے۔ ایک یہ کہ جنگ اور بحران کا شکار لیبیا میں ایسے اسمگلرز تلاش کئے جائیں جو اسرائیل کو سستی گیس اور خام تیل فراہم کر سکیں۔ دوسرا معمر قذافی کی باقی رہ جانے والی دولت اور اسلحہ کے ذخائر پر قبضہ کرنا تھا۔ درحقیقت لیبیا میں قذافی حکومت کی سرنگونی کے بعد معرض وجود میں آنے والے بحرانی حالات میں کئی ممالک اس کوشش میں مصروف تھے کہ بین الاقوامی اسمگلرز کی مدد سے قذافی کا بچا ہوا اسلحہ حاصل کر سکیں۔ اسرائیل اب بھی لیبیا میں موجود قیمتی اسلحے کے ذخائر حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اسرائیل ہر گز اسلامی ممالک سے بڑے اقتصادی اور تجارتی معاہدے انجام نہیں دیتا اور ان ممالک میں سرمایہ کاری بھی نہیں کرتا۔ لیبیا میں بھی اسے یقین ہے کہ مستقبل میں جو حکومت بھی برسراقتدار آئے گی وہ اس کی مخالف ہو گی۔ خطے کی اسلامی حکومتیں بھی اعلانیہ طور پر اسرائیل سے کوئی بڑا معاہدہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر عوامی مخالفت سے خوفزدہ ہیں۔ لہٰذا اس وقت اسرائیل کی پالیسی بین الاقوامی اسمگلرز کے ذریعے لیبیا سے خام تیل اور گیس حاصل کرنے پر استوار ہے۔ دوسری طرف اسرائیل لیبیا میں ایسی حکومت برسراقتدار لانے کی کوشش کر رہا ہے جو سیکولر ہو اور اسلامی نہ ہو ،تاکہ عالمی سطح پر یہ نئی حکومت اسرائیل کو درپیش مشکلات میں مزید اضافے کا سبب نہ بن پائے۔ عالمی سطح پر اسرائیل کو درپیش سب سے بڑی مشکل وہ اسلامی حکومتیں ہیں جو اسرائیل مخالف پالیسیز پر گامزن ہیں اور اسرائیل کو گوشہ گیر کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جنرل حفتر سے اسرائیل کے تعلقات کی نوعیت بھی پیچیدہ ہے۔ اسرائیل کی کوشش ہے کہ جنرل حفتر سے تعلقات قائم کر کے لیبیا میں جاری داعش کے خلاف جنگ میں شریک ہو سکے۔ اسرائیل اس اقدام کے ذریعے کئی مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ایک تو وہ بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ وہ بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ دوسرا اس اقدام کے ذریعے اسرائیل لیبیا میں اپنے قدم مضبوط کرنا چاہتا ہے تاکہ اس طرح لیبیا میں اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کر سکے۔ اگر مستقبل میں اسرائیل اور لیبیا میں کسی قسم کے تعلقات استوار ہو بھی جاتے ہیں تو زیادہ امکان یہ ہے کہ وہ دوسرے بعض اسلامی ممالک سے اسرائیل کے تعلقات کی مانند خفیہ رہیں گے۔ اسرائیل اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ اگر لیبیا میں سو فیصد عوامی حکومت برسراقتدار آتی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اسرائیل مخالف ہو گی، لہٰذا ابھی سے اسرائیل اس ملک میں سیکولر قوتوں کو آگے لانے کی کوشش کر رہا ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply