پاک چین اقتصادی راہداری کا ایک بھیانک پہلو

وژن 2025 وہ منصوبہ ہے جس کے ساتھ کروڑوں پاکستانیوں کی امیدیں، خواب اور روشن مستقبل کی دید وابستہ ہے۔غربت، دہشت گردی اور ناکافی سہولیات زندگی کی ستائی پاکستانی قوم اس منصوبے سے بڑی توقعات اور امیدیں لگائے بیٹھی ہے۔ 80 لاکھ ملازمتیں، درجنوں اکنامک زون، فائبر آپٹک، ریلوے لائن، سڑکوں کا جال ، کاروبار کے مواقع اور انفراسٹرکچر کی بہتری کیا کچھ نہیں ہے اس منصوبے میں۔ آغاز میں کئی اطراف سے وژن 2025 پر اعتراضات ہوئے۔ سوالات بھی اٹھائے گئے۔ چھوٹے صوبوں کے استحصال کا رونا رویا گیا۔سیکیورٹی ایشو بھی سامنے آیا۔ لیکن جب سابق آرمی چیف نے اعلان کیا کہ سی پیک منصوبہ ہر قیمت پر مکمل کیا جائے گا تو کچھ خاموشی سی چھا گئی۔ وژن 2025 سے ناراض حلقوں کو یقیناًاطمینان دلا دیا گیا ہو گا جس کی تفصیلات کبھی سامنے نہیں آ سکیں یا اگر آئی بھی ہوں تو کم از کم میرے علم میں نہیں ہیں۔ بہرکیف جو بھی ہوا امید ہے کہ اچھے کے لیے ہوا ہو گا لیکن میرا مسئلہ سیکیورٹی ایشو ہے اور نہ ہی میرے صوبے کا استحصال۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں بحیثیت فرد ،وژن 2025 سے شدید نقصان کا شکار ہونے والا ہوں۔ کیسے۔؟ آئیے تفصیل سے جانتے ہیں۔
میرا نام اللہ دتہ ہے۔ میں وژن 2025 کے مرکزی منصوبے پاک چین اقتصادی راہداری کی شہ رگ یعنی شاہراہ ریشم پر واقع ایک گاؤں کا باسی ہوں۔ میرے گاؤں کا کل رقبہ لگ بھگ 5 ہزار کنال ہے۔ میرے گاؤں میں قریب 60 ہزار لوگ یا 800 خاندان رہتے ہیں۔ 2 فیصد خاندان خوشحال ہیں۔ یعنی یا تو وہ اعلی ٰعہدوں پر فائز ہیں یاان کا تگڑا کاروبار ہے اور یا پھر جاگیردار ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی سو پچاس کنال زمین سی پیک کا حصہ بننے جا رہی ہے جس کے ہونے نہ ہونے سے ان کی آمدن پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ وہ دو فیصد طبقہ ہے جسے سی پیک یا وژن 2025 کی تکمیل سے یا تو فائدہ حاصل ہونا ہے یا کم از کم کسی قسم کا نقصان نہیں ہونا۔ میرے گاؤں میں 60 سے 70 فیصد لوگ وہ ہیں جو دو، چار، دس، پچاس یا زیادہ سے زیادہ سو کنال زمین کے مالک ہیں۔ ان میں کچھ تو وہ ہیں جو سکول ٹیچر، کلرک، منشی، چپڑاسی، پولیس کانسٹیبل، آرمی جوان، عام دکاندار اور چھوٹے موٹے کاروبار کے سہارے زندگی کا بوجھ اٹھائے جیسے تیسے جی رہے ہیں۔ یہ اس طبقے کے افراد ہیں جن کی زمین بہن، بیٹی کی شادی، کسی اپنے کی بیماری یا پھر کورٹ کچہری کے اخراجات پورے کرنے واسطے فروخت ہوتی رہتی ہے اور اگر بچ جائے تو سال کے ٹھیکہ پر کسان کے پاس رہتی ہے جو اس میں فصل اگاتا ہے اور سالانہ بنیادوں پر کچھ رقم زمین کے مالک کو دے دیتا ہے۔ ہمارے ہاں اس رقم کو کلنگ کہا جاتا ہے ۔
زراعت سے ناواقف قارئین کی معلومات کے لیے عرض کر دوں کہ قابل کاشت زمین کی مختلف قسمیں ہیں۔ جیسے آبی، یعنی وہ زمین جسے نہری نظام کے تحت پانی پہنچتا ہے۔ بارانی، یعنی وہ زمین جو بارش کے پانی سے سیراب ہو تو ہو ورنہ اس کے لیے پانی میسر نہیں ہوتا۔ آبی زمین بھی دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک جسے کھاڑی کہا جاتا ہے یعنی وہ زمین جس میں آلو، گندم، مکئی اور دیگر اجناس کاشت ہوتے ہیں۔ یہ وہ زمین ہے جس تک پانی کی ترسیل محکمہ آبپاشی کے ذمہ ہوتا ہے جو باقاعدہ اس کا خراج وصول کرتا ہے۔ دوسری وہ زمیں جسے ہوتر کہا جاتا ہے یعنی جس میں چاول، گنا اور دیگر ایسی فصلیں کاشت ہوتی ہیں جنہیں بہت زیادہ پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہوتر زیادہ تر کسی ندی یا دریا کنارے واقع ہوتے ہیں۔ اگرچہ کاشت کے اعتبار سے یہ زمین آئیڈیل ہوتی ہے لیکن ندی اور دریا کنارے واقع ہونے کی وجہ سے اس کا تھل پلپلا اور کمزور ہوتا ہے۔ اس زمین کی مارکیٹ ویلیو کم ہے کیونکہ ایک تو اسے سیلابی ریلوں کا سامنا رہتا ہے دوسرا اسے کمرشل بنیادوں پر استعمال کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ پہاڑی علاقے میں زمین کی دو مزید قسمیں بھی ہیں قابل کاشت پہاڑی زمین اور ناقابل کاشت پہاڑی زمین۔ اسی طرح جنگل، پھر جنگل میں ملکیت اور سرکاری جنگل ۔ سرکاری جنگل میں گزارہ اور بند جنگل وغیرہ۔
آمدم برسر مطلب کئی اقسام کی زمینوں پر مشتمل میرے گاؤں کے بقیہ 25 سے 30 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے رہتے ہیں۔ یہ اپنی اولاد کو وراثت میں غربت، کسمپرسی اور مزید غربت کے سوا کچھ دینے کے قابل نہیں ہوتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کسی جاگیردار یا سو پچاس کنال کے مالک مڈل کلاس فیملی کے ہاں مزارعت کا کام کرتے ہیں۔ ریڑھی لگاتے ہیں۔ دیہاڑی دار مزدور اور کاریگر ہوتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ اونچی دیواروں والے کسی بنگلے میں نوکر۔ ان کے پاس اپنا گھر ہوتا ہے نہ اپنا گھر بنانے کا خواب۔ زمین کے جس ٹکڑے میں مزارعت کرتے ہیں اسی کے ایک کونے پر کٹیا بسا دیتے ہیں اور اگر زمیندار نے دھتکار کر نہ نکالا تو اپنی کئی کئی نسلیں اسی کٹیا میں فناکر دیتے ہیں۔ ان دو قسم کے لوگوں کے لیے زمین کی تمام اقسام یکساں قابل قدر ہیں کیونکہ انہیں ہمہ وقت مالی مشکلات کا سامنا رہتا ہےجن کے حل کے لیے زمین کا گروی رکھنا، زمین کا فروخت کرنا، زمین میں سٹھیا فصل اگانا، گھاس بیچنا ، اپنی زمین میں اگے درخت کاٹ کر چولہا جلانا، ضرورت سے زیادہ درخت اگا کر سردیوں میں فروخت کرنا اور درجنوں دیگر پینترے ان کے لیے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کی مانند ایک مناسب حل ہوتا ہے لیکن ان سب کاموں کے لئے زمین کا ہونا لازمی امر ہے اس لیے اچھی بڑی، مہنگی سستی، ہوتر اکھاڑی الغرض ہر قسم کی زمین کا ایک ایک ٹکڑا ان کے لئے بے پناہ اہمیت رکھتا ہے.
وژن 2025 سے میرے گاؤں کا یہی 98 فیصد طبقہ شدید نقصان کا شکار ہو گا۔ اگر 98 فیصد کا عدد آپ کو مبالغہ آمیز لگے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ مختلف علاقوں کا اوسط نکالا جائے تو شاید متاثر ہونے والوں کی تعداد کم ہو سکتی ہے تو بھی کم ازکم 80 فیصد لوگ ایسے ہیں جن کی کل کائنات سی پیک کی نذر ہونے جا رہی ہے۔ ان کا ذریعہ آمدنی ختم ہونے والا ہے۔ بے شمار ایسے خاندان ہیں جن کے سر سے چھت چھن جائے گی، اور بدلے میں انہیں کیا ملے گا۔؟ فقط مال بردار گاڑیوں کا شور اور ایندھن سے آلودہ ہوا۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ جن لوگوں کی زمینیں اقتصادی راہداری کی نذر ہورہی ہیں انہیں بدلے میں زمین کی قیمت کے ساتھ دوسری جگہ زمین دی جائے ۔ اگر قابل کاشت زرعی زمین لی جائے تو بدلے میں قابل کاشت زرعی زمین دی جائے۔ اگر کسی کا گھر، دکان یا گودام لیا جائے تو بدلے میں اسے قیمت کے ساتھ دوسری جگہ دکان، مکان اور گودام بنانے کے لئے زمین بھی دی جائے۔ جیسا کہ تربیلہ ڈیم بناتے وقت ہوا تھا۔ لیکن افسوس کہ ایسا ہو نہیں رہا بلکہ کمپلسیشن تو رہی ایک طرف، ہمارے ہاں ایکسپریس وے فیز ٹو کے لیے جتنی بھی زمین گورنمنٹ نے لی ہے سب کی قیمت بھی مارکیٹ ویلیو سے کئی گنا کم لگائی ہے۔ حویلیاں سے تھاکوٹ تک کے تمام لوگ نالاں ہیں۔ وہی لوگ جن کے چہرے چند دن پہلے تک خوشی سے تمتما رہے تھے آج بجھے بجھے سے دکھائی دیتے ہیں۔ جس ،سی پیک کو وہ روشن مستقبل کی نوید سمجھ رہے تھے وہی ان کے لیے ڈرواؤنا خواب بنتا جا رہا ہے۔ دبے لفظوں میں جرات انکار سنائی دیتی ہے۔ اندر ہی اندر سب کھو جانے کا ڈر جڑ پکڑ رہا ہے۔ ایک لاوا ہے جو پک رہا ہے۔ ڈرتا ہوں کہیں ابل نہ جائے کیونکہ یہ لاوا اگرابلا تو بہت کچھ جلا کر بھسم کر دے گا۔

Facebook Comments

وقاص خان
آپ ہی کے جیسا ایک "بلڈی سویلین"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply