• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عالمی یوم سیاحت اور پاکستان میں سیاحت کو درپیش مسائل( حصّہ اوّل) ۔۔ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بخاری

عالمی یوم سیاحت اور پاکستان میں سیاحت کو درپیش مسائل( حصّہ اوّل) ۔۔ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بخاری

ستمبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی جہاں ایک طرف جنگِ ستمبر کی یادیں طبیعت میں جوش و ولولہ بھر دیتی ہیں وہیں 27 ستمبر کو ہونے والا عالمی یوم سیاحت میرے جیسے آوارہ گردوں کو بیدار کر دیتا ہے۔ یہ بے چین روحوں کو در در خاک چھاننے پر اکساتا ہے اور کسی نہ کسی سفر کا قصد کرنا ہی پڑتا ہے۔

سیاحت ان شعبوں میں سے ایک ہے جس میں موجودہ حکومت کے آنے کے بعد کافی بڑھوتری ہوئی ہے۔ وطنِ عزیز کو اللہ پاک نے قدرتی نظاروں کے ساتھ ساتھ بیش بہا تاریخی خزانوں اور سینکڑوں مذہبی و مقدس مقامات سے نوازا ہے جسے دیکھنے بیرونِ ملک سے بھی بہت سے سیاح ہر سال آتے رہتے ہیں۔ لیکن گزشتہ سال کرونا وائرس کی وجہ سے لگائی گئی سفری پابندیوں کی بدولت غیر ملکی سیاحوں کی آمد انتہائی کم رہی۔ ایسے موقع پر اندرون ملک سیاحوں نے اس شعبے کو سنبھالا اور اپنا بھر پور حصہ ڈالا۔

کرونا کے آنے کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ اس انڈسٹری کو تالے لگ جائیں گے، لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے چار دیواری میں قید پاکستانیوں نے سیاحت کی دم توڑتی صنعت میں ایک نئی روح پھونک دی اور اگلے پچھلے سب ریکارڈ برابر کر دیئے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ قوم گھومنے پھرنے کی شیدائی ہے اور اس کی جبلت میں خوبصورت نظاروں کی کشش رکھ دی گئی ہے۔

اگر بات کریں گزشتہ چند سالوں میں سیاحت کے میدان میں ہونے والی کامیابیوں کی تو اس عرصے میں بہت سی خوشخبریاں سننے کو ملی ہیں۔ جہاں عالمی منظرنامے پر پاکستان کے ایک نوجوان سپوت ”شہروز کاشف” نے دنیا کی سب سے بڑی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ پہ قدم رکھ کر ایک ریکارڈ بنایا تو وہیں ”سِرباز خان” بھی ان کے پیچھے ایورسٹ تک جا پہنچے۔ سرباز اس کے علاوہ عبدل جوشی کے ہمراہ ”اناپورنا” بھی سر کر چکے ہیں اور اب شہروز دوبارہ نیپال میں ”مناسلو” اور سرباز ”دھولاگیری” سر کرنے پہنچ چکے ہیں۔

ملک کے اندر بھی بہت سے لوگوں نے اپنے بلند عزم کے آگے کے-ٹو جیسے پہاڑ کو جھکایا جن میں ”محمد علی سدپارہ مرحوم” خاص طور پہ قابل ذکر ہیں جو کے ٹو تک تو نہ پہنچ سکے، لیکن اس سفید سلطنت میں ہی اپنی جان رب کے سپرد کر دی۔
ان کے بعد ان کے بیٹے ”ساجد سدپارہ” نے انکا خواب کے ٹو پر سبز ہلالی پرچم لہرا کر پورا کیا۔ سرباز خان اور شہروز کاشف نے بھی کے ٹو پر قدم رکھا۔ نائلہ کیانی نامی ایک نوجوان لڑکی نے 8035 میٹر بلند گیشربروم۔ ٹو چوٹی سر کی۔ ان کے علاوہ محمد عثمان ارشد، اسد اللہ موجیانوالہ، ضیاء الرحمٰن، عبدالرحمان پالوہ اور چند دیگر ایسے نام ہیں جنہوں نے مختلف طریقوں سے لمبے سفر کر کے سیاحت کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اب بہت سے لوگ انوکھے طریقے اپنا کر پہاڑی علاقوں میں سیاحت کو فروغ دے رہے ہیں۔

اس ضمن میں حکومت کے اٹھائے گئے اقدامات کا ذکر کریں تو وزیراعظم عمران خان کئی بار مختلف فارمز پر اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ سیاحت اس حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے اور ہم سیاحت کی ترقی و ترویج کے لیئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ سیاحتی مقامات پر بین الاقوامی معیار کی سہولتوں کو یقینی بنانے کے ساتھ سیاحت کے حوالے سے زیرِ التوا معاملات کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے گا۔ ان کی یہ بات سچ ہوتی نظر آ رہی ہے کہ گزشتہ دو تین سالوں میں سیاحت کے میدان میں بہت سے نئے منصوبوں کا آغاز دیکھنے میں آیا ہے۔
جہاں سیاحت کے حوالے سے ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد کیا گیا وہیں حکومت پاکستان نے بہت سے مواقع پر ملک کے مختلف علاقوں میں صفائی مہم بھی منعقد کروائی ہے۔ پنجاب حکومت نے پہل کرتے ہوئے رواں برس سیاحت کے لیئے دگنے سے بھی زیادہ بجٹ منظور کیا ہے جبکہ اِس سال سوشل میڈیا کے ذریعے سیاحت کو بھرپور طریقے سے پروموٹ کیا گیا ہے۔
پنجاب میں ٹی ڈی سی پی نے سیاحت کے حوالے سے تین زونز بنائے ہیں جن میں نارتھ زون (اٹک، کوٹلی ستیاں، کوہ نمک) ، سینٹرل زون (لاہور، چھانگا مانگا، قصور) اور ساؤتھ زون (بہاولپور، کوہِ سلیمان، چولستان، ملتان) کے پراجیکٹس شامل ہیں ۔

ان تینوں زونز میں تیزی سے مختلف سہولیات کی فراہمی پر کام جاری ہے۔ جہاں کوہِ سلیمان میں مختلف ثقافتی سرگرمیاں منعقد کروائی گئی ہیں وہیں وادئ سون میں ”گلیمپنگ پوڈز” نصب کرنے کے ساتھ ساتھ کھبیکی جھیل ریزورٹ کی تعمیر اور پانی پر تیرتی جگمگاتی کشتیاں بھی چلائی گئی ہیں جس سے اس وادی میں سیاحوں کی آمد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب میں مری اور پتریاٹہ کے مقام پر بھی یہ پوڈز نصب کیئے گئے ہیں جبکہ کوٹلی ستیاں اور چھانگا مانگا میں ابھی نصب کیے جانے ہیں۔
ٹی ڈی سی پی کے منیجنگ ڈائریکٹر ”جناب تنویر جبار بھٹی” کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ یہ پوڈز جہاں رہائش کا سستا ذریعہ اور ماحول دوست ہیں وہیں یہ شہروں سے سیاحوں کے رش کو کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوں گے۔
اسی طرح خیبر پختونخواہ ٹوارزم نے بھی ٹھنڈیانی، شانگلہ، شیخ بدین اورشاران کے مقامات پر یہ گلیمپنگ پوڈز نصب کیئے ہیں جنہیں سیاحوں کی طرف سے بھرپور پذیرائی مل رہی ہے۔

ہزارہ ڈویژن میں عالمی معیار کی موٹروے بننے سے اس خطے کو بے پناہ فائدہ ہوا ہے۔ جہاں دور دراز علاقوں تک کا سفر کم اور آسان ہوا ہے وہیں اس ایک سڑک نے بہت سے دلکش مناظر دنیا تک پہنچائے ہیں۔
ٹوارزم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب نے وزیر اعظم کے ویژن پر عمل کرتے ہوئے پنجاب میں دو بہترین پروجیکٹس متعارف کروائے ہیں، پہلا ضلع جہلم میں ”البیرونی ہریٹیج ٹریل” اور دوسرا پوٹھوہار کی جھیلوں میں واٹر سپورٹس و دیگر سہولیات کی فراہمی۔

البیرونی ہریٹیج ٹریل پراجیکٹ کا افتتاح رواں سال وزیر اعظم عمران خان نے نندنہ قلعے کے مقام پر کیا تھا جس میں ضلع چکوال و جہلم کے، ایک ہی دائرے میں موجود سات مختلف مقامات کی بحالی شامل ہے۔ یہ مقامات مندر و قلعہ نندنہ ، کٹاس راج کا شیو مندر، کھیوڑہ کی کان، ملوٹ کا قلعہ و مندر اور تخت بابری ہیں۔

دوسرے اہم منصوبے میں ضلع چکوال اور گرد و نواح کے علاقے میں واقع چھوٹی جھیلوں اور ڈیموں پر واٹر سپورٹس کی سہولیات مہیا کر کے عوام کا رخ ان علاقوں کی طرف موڑا جا رہا ہے۔ ان میں کلرکہار جھیل، دھرابی ڈیم، ڈھوک ٹالیاں ڈیم، سرگودھا اور کالاباغ کے مختلف علاقے سامل ہیں۔

ملک کے دیگر مقامات پر بھی حکومت کی جانب سے نئے ریزارٹس کا قیام اور پختہ سڑکوں کی تعمیر جاری ہے۔ سی پیک منصوبے کے تحت بنائی گئی بہت سی سڑکوں نے کئی دشوار گزار علاقوں تک عام آدمی کی رسائی ممکن بنا دی ہے جس سے ان علاقوں میں سیاحت کو بھی ترقی ملی ہے۔ بہت سے اہم مقامات پر سیاحتی و معلوماتی بورڈز لگائے گئے ہیں۔ کلرکہار کا عجائب گھر بھی رواس سال عوام کے لیئے کھول دیا گیا ہے۔ آثارِ قدیمہ کے 12 مختلف مقامات پر رات کے وقت خوبصورت روشنیوں کا انتظام بھی حکومت کے اہم کارناموں میں شامل ہے۔

جہاں ایک طرف ضلع چترال کے علاقوں میں قومی سطح پر پیراگلائیڈںگ کے مقابلے اور تھل میں جیپ ریلی منعقد کروائی جا رہی ہے وہیں نگر پارکر اور چولستان جیسے علاقوں میں سیاحتی ریزارٹس کے ذریعے صحرائی علاقوں میں سیاحت کو پروموٹ کیا جا رہا ہے۔ لاہور کے بعد اب بہاولپور میں بھی سیاحوں کے لیئے ڈبل ڈیکر بس چلا دی گئی ہے۔ گجرات شہر میں ”رام پیاری میوزیم” کو مکمل کر کے کھول دیا گیا ہے۔

ٹی ڈی سی پی سے تعلق رکھنے والے جناب ”عثمان قریشی” کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر تونسہ کے مقام پر ”انڈس بلائنڈ ڈولفن ٹوارزم پارک” کا قیام ، اٹک میں دریائے سندھ پر واٹر سپورٹس و ریزارٹ اور سکھوں کے مذہبی مقامات کی بحالی پر بھی تیزی سے کام جاری ہے۔

عمران خان کے دور حکومت میں ایکو ٹوارزم، جنگلات اور ماحولیات پر جتنا کام ہوا ہے میں سمجھتا ہوں اتنا پہلے کسی دور میں نہیں ہوا۔ اور اس کامیابی کا کریڈٹ بلاشبہ ان کی ٹیم اور ان نوجوانوں کو جاتا ہے جنہوں نے گرمی سردی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جگہ جگہ پودے لگائے۔ پاکستان، ماحولیات کے حوالے سے خطرے سے دوچار ممالک کی فہرست میں شامل ہے لیکن شجرکاری اور دیگر اقدامات سے ہم مسلسل اس خطرے سے نمٹنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔
ملک بھر کے اسکولوں، کالجوں، اسپتالوں، پارکوں، چوکوں اور دیگر عوامی مقامات پر پودے لگانا، حکومت کی طرف سے درختوں کی مفت فراہمی، جنگلات کی کٹائی پر پابندی اور ان کی نگرانی، محکمہ جنگلات میں نئے اقدامات اور عملے کی تربیت، بہت سی بنجر زمینوں اور نہروں کے کناروں پر شجرکاری، 13200 ایکڑ رقبے پر محیط سالٹ رینج نیشنل پارک کا قیام، 13500 ایکڑ رقبے پر محیط ٹلہ جوگیاں نیشنل پارک کا قیام اور مختلف طریقوں سے حیاتیاتی تنوع اور ماحول کی حفاظت وہ اہم اقدامات ہیں جو سیاحت کی ترقی میں اہم سنگ میل ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایسے اقدامات کے فوائد یقیناً اگلی نسلوں کو منتقل ہوں گے۔

محکمہ آثارِ قدیمہ پنجاب کی پرفامنس میں بھی کافی بہتری آئی ہے۔ گزشتہ سالوں سے اب تک اس محکمے نے بہت سے منصوبوں کو کامیابی سے مکمل کیا ہے جن میں ٹیکسلا میوزیم کی تزئین و آرائش، مقبرہ خان بہادر کی مرمت و بحالی، ہرن مینار میں معلوماتی سینٹر کا قیام و باغات کی بحالی، جامپور میں ڈھیری دلو رائے کی کھدائی اور نوادرات کی دریافت، اوچ شریف و ملتان میں مختلف مقبروں کی مرمت و آرائش اور معلوماتی ڈاکومینٹریز کے ذریعے آگاہی پھیلانا۔

Advertisements
julia rana solicitors

محکمہ آثار قدیمہ حکومتِ پنجاب کے ڈائریکٹر ”مقصود احمد صاحب” کا کہنا ہے کہ ہمارا محکمہ بحالی و مرمت کے اور بہت سے منصوبوں پر کام کر رہا ہے جن میں واہ کینٹ کے مغل باغات، مقبرہ خیر النساء جہلم، قلعہ تلاجہ خوشاب، واں بھچراں میں شیر شاہ سوری کی باؤلی، مقبرہ طاہر خان ناہڑ سیت پور، مقبرہ سادن شہید مظفرگڑھ، مقبرہ شیخ علی بن حسن پھالیہ اور نواںکوٹ لاہور میں دروازوں اور برجیوں کی بحالی شامل ہے۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply