اگلی نسل کی دنیا (8) ۔ ٹیکنالوجی/وہارا امباکر

آج سے دو صدیاں پہلے تھامس مالتھس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ آبادی میں ہونے والا اضافہ کس قدر تیزرفتاری ہونے لگے گا۔ تھامس مالتھس کے خیالات کو واپس منظرِعام پر لانے اور پاپولر کلچر کا حصہ بنانے والے سٹینفورڈ میں بائیولوجی کے نوجوان پروفیسر پال ایلرچ تھے۔ انہوں نے 1968 میں مشہور کتاب “The Population Bomb” لکھ کر دنیا کو چونکا دیا۔ یہ ایک خوفناک کتاب تھی۔ اس میں آنے والے وقتوں میں عالمی قحط، آلودگی سے ہونے والی اموات اور بڑے پیمانے پر ہونے والے آبادیوں کے خاتمے کی پیشگوئی کی گئی تھی، اگر ہم نے آبادی کا بے تحاشا اضافہ نہ روکا۔
ایلرچ ٹی وی شوز میں آتے اور اس کا ذکر کرتے۔ اور انہی کے خیالات تھے، جن کے اثر کی وجہ سے چین نے آبادی کنٹرول کرنے کے لئے 1979 میں ون چائلڈ پالیسی کا نفاذ کیا۔
چین آج اپنی اس پالیسی کا demographic dividend تیزرفتار ترقی کی صورت میں وصول کر رہا ہے لیکن ایلرچ کی پیشگوئیوں کا بدترین حصہ وقوع پذیر نہیں ہوا۔ ایسا کیوں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی کئی وجوہات تھیں۔ ان میں سے ایک تو خود انہی کی کتاب تھی جس کی وجہ سے یہ مسئلہ نمایاں ہوا۔ نہ صرف چین نے، بلکہ کئی دوسرے ممالک نے موثر اقدامات لئے۔ دوسرا اور زیادہ اہم فیکٹر یہ کہ ان کی ایکولوجیکل اپروچ میں انسانی فطانت اور ٹیکنالوجی کے اثرات نہیں تھے۔ ہماری آبادی بڑھتی گئی ہے اور معیارِ زندگی بھی۔ زراعت، خوراک، تجارت، پانی، انجینرنگ، توانائی، مواصلات، گلوبلائزیشن کی جدتوں نے یہ ممکن کیا ہے کہ آج پونے آٹھ ارب لوگ دنیا میں ہیں اور بہتر معیارِ زندگی رکھتے ہیں۔
ڈیموگرافی، وسائل، گلوبلائزیشن اور موسمیاتی تبدیلیوں کی چار قوتوں کے ساتھ پانچویں فورس ٹیکنالوجی کی ہے جو طے کرے گی کہ اگلی نسل کی دنیا کیسی ہو گی۔
تاہم، ساتھ ہی ساتھ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ٹیکنالوجی اپنے ساتھ غیرارادی نتائج بھی لا سکتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے کئی مختصر مدت کے حل طویل مدت کی مشکلات بھی لائے ہیں۔ اور یہ بھی کہ ہم اس بات پر بھروسہ نہیں کر سکتے کہ مستقبل میں بھی ٹیکنالوجی کام آئے گی۔
جبکہ اسی کے ساتھ دوسری چیز یہ کہ ہم معیارِ زندگی برقرار رکھنے کے لئے اور بدترین حالات سے بچنے کے لئے سائنس اور ٹیکنالوجی پر منحصر رہیں گے۔ ٹیکنالوجی کی دوڑ بقائے انسانی کے لئے ناگزیر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیز تر عالمی رابطے عالمی مالیاتی منڈیاں اور تجارت ممکن کر رہے ہیں۔ جدید ہیلتھ کئیر اور فارماکولوجی آبادی کی عمر کے سٹرکچر کو تبدیل کر رہی ہیں۔ میٹیریل سائنس، بائیوٹیک اور نینوٹیک میں جدتیں وسائل کے سٹاک کی مانگ کو تبدیل کر رہی ہیں۔ شمسی پینل، سمارٹ گرڈ اور جیو انجیرنگ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔ ٹیکنالوجی پہلی چار فورسز کے اثر کو کہیں مہمیز لگاتی ہے اور کہیں ان کو بریک لگاتی ہے۔ تاہم، محض کوئی ایک عظیم فیکٹر یا کوئی ایک بڑا حل کہیں پر موجود نہیں جو مستقبل کو طے کر دے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سیریز اس کتاب سے لی گئی تھی
The World in 2050: Laurence Smith
لارنس سمتھ ہائیڈرولوجسٹ ہیں۔ ان کی اس کتاب کے ابواب میں مستقبل کے شہر، معدنی وسائل، ری نیو ایبل توانائی، پانی، موسمی تبدیلیوں، نئے تجارتی راستوں، آبادیوں کے پریشر کی وجہ سے ممکنہ سرحدی تبدیلیوں، قدرتی تبدیلیوں کی وجہ سے فائدہ اٹھانے والے علاقوں، نئے مواقع، تنازعات اور خطرات کے مستقبل کے اندازے (بمع وجوہات) لگائے گئے ہیں۔
اگر یہ پسند کا موضوع ہے تو اس پر پڑھنے کے لئے یہ ایک دلچسپ کتاب ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply