ہم نے یہ تو سناتھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ سیاست کی آنکھیں اور کان بھی نہیں ہوتے ۔ ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال کچھ ایسی ہے کہ عوام کو سیاسی منظر نامہ پر کچھ دکھائی دے رہا اور نہ کچھ سنائی دے رہا ہے۔
ہم نے ماضی میں ملک میں کئی الیکشن دیکھے ہیں حتیٰ کہ 1985 میں جنرل ضیا الحق کے کروائے گئے غیر جماعتی الیکشن بھی، لیکن تب بھی ایسی فضا نہیں بنی تھی کہ جو اَب 2024 کے الیکشن سے پہلے بنی ہوئی ہے۔
سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوگیا ہے کہ آیا یہ الیکشن ہوں گے بھی یا نہیں ؟اور اگر ہوجاتے ہیں تو یہ کس قدر شفاف ہوں گے؟ اگر الیکشن نہیں ہوتے ہیں تو ملک میں سیاسی استحکام کیسے آئے گا اور اگر الیکشن غیر شفاف ہوتے ہیں تو آنے والی نئی حکومت اتنے سنگین بحرانوں سے کس طرح نبرد آزما ہوگی؟ اس کا جواب فی الحال کسی کو بھی نہیں سُوجھ رہا۔
ملک میں موجود اس غیر یقینی کے اثرات تباہ ہوتی ہوئی معیشت پر بھی بُری طرح مرتب ہورہے ہیں اور عوام مہنگائی کی چکّی میں بُری طرح پِس رہے ہیں۔۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2023 کے دوران بھی تقریباََ 8 لاکھ سے زائد پاکستانی نوجوان بہتر مستقبل کی تلاش میں بیرون ملک سدھار گئے ہیں۔ ان میں زیادہ تر تعداد اِن پڑھے لکھے نوجوانوں کی تھی جنہیں اس ملک کا مستقبل بننا تھا۔
بحیثیت مجموعی پاکستان میں اس وقت میں مایوسی کے سائے چھائے ہیں۔ ججز استعفے دے رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن ایک سیاسی جماعت کے انتخابی نشان کے پیچھے پڑا ہے۔ کوئی اپنے بیٹے اور کوئی اپنی بیٹی کو وزیر اعظم بنانے کا متمنی ہے۔ رہے قوم کے کروڑوں بیٹے اور بیٹیاں تو ان کے لیے کوئی بھی سوچنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
یہ مایوسی کے بادل کس طرح چھٹیں گے ،کسی کو بھی اس کی فکر نہیں ہے۔ کل کوئی لاڈلہ تھا تو آج کوئی اور لاڈلہ بنا ہوا ہے۔ کل اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا کوئی اور تھا اور آج کوئی اور ہے۔ کل سلیکٹڈ کا خطاب کسی اور کے لیے تھا تو آج سلیکشن کسی اور کی ہونے جارہی ہے۔
اقتدار کی اس میوزیکل چیئر میں جو کھلاڑی شریک ہیں ان کی لگامیں کسی اور کے پاس ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے سیاسی زعما اس بات کا ادراک ہی نہیں کرپارہے ہیں کہ انہیں اب سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ مسئلے اگر سیاسی ہیں تو ان کا حل بھی سیاسی ہی نکالنا ہوگا۔
اب بھی وقت ہے کہ سیاسی فیصلے عدالتوں میں نہیں سیاسی میدان میں ہی کیے جائیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اب ہمارے پاس نوابزادہ نصر اللہ خان جیسے لوگ موجود نہیں ہیں جو تمام تر اختلافات کے باوجود سیاسی جماعتوں کو ایک میز پر بٹھادیتے تھے۔ ضد، انا اور انتقامی جذبہ کو پیچھے ہٹالیا جائے تو بہت سے مسائل ویسے ہی ختم کیے جاسکتے ہیں۔ یہ وقت اینٹی اسٹیبلشمٹ یا پرو اسٹیبلشمنٹ بننے کا نہیں بلکہ “پرو جمہوریت پسند” بننے کا ہے۔
تمام سیاسی جماعتیں ایک نقطے پر متفق ہوجائیں کہ الیکشن میں کوئی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ طاقتور حلقوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ عوام میں مقبول کسی جماعت یا شخصیت کو مصنوعی طریقوں سے ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ سیاستدانوں کے مستقبل کا فیصلہ عوام کے ہاتھوں میں دیں کہ وہ جس کو چاہیں مائنس اور جسے چاہیں پلس کریں۔ پاکستان کے تمام مسائل کا حل عوامی مائنس اور پلس میں ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں