وزارتِ صحت کی کرپشن پر خاموشی کیوں؟۔۔ڈاکٹر محمد شافع صابر

یہ نومبر 2019 کی بات ہے، جب تحریک انصاف کی حکومت نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل (PMDC) کو ایک آرڈیننس کے ذریعے ختم کر دیا اور اس کی جگہ ایک نیا ادارہ پاکستان میڈیکل کمیشن (PMC) قائم کیا گیا۔ PMDC کے ملازمین اس آرڈیننس کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ گئے، ہائی کورٹ نے یہ آرڈیننس ختم کر کے Pmdc بحال کر دی اور PMC کو کام کرنے سے روک دیا۔
حکومت نے pmc کو بند کر دیا، لیکن کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی بلڈنگ میں pmc کا دفتر قائم کر دیا۔

تمام ڈاکٹرز، میڈیکل طلبہ کو کہا گیا کہ وہ اپنے معاملات کے لیے اس دفتر سے رجوع کریں (حالانکہ یہ دفتر ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد غیر قانونی تھا)۔
اسی اثناء میں، فائنل ائیر ایم بی بی ایس کا رزلٹ آ گیا۔ جتنے بھی فریش گریجوایٹس تھے، انہیں ہاؤس جاب کے لیے provisional licence کی ضرورت تھی، جو کہ pmdc نے جاری کرنا تھا۔ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ابھی تک pmdc کو کھولا نہیں گیا تھا۔ تمام فریش گریجواٹیس کو کہا گیا کہ وہ لائسنس کے لیے اس دفتر میں اپنے فازمز جمع کروا دیں، لائسنس کے حصول کے لیے فی کس 1000 روپے فیس جمع کروانا ہو گی۔

جب فریش گریجویٹس فارم جمع کروانے اس دفتر میں  گئے، انہیں یقین دہانی کروائی گئی کہ اگر pmdc دوبارہ کام کرنے لگ گئی  ہے،تو یہی فارم اور فیس ادھر ٹرانسفر کر دی جائے گی، اگر انٹرکورٹ یا سپریم کورٹ نے pmc کو بحال کر دیا تو پھر کوئی مسئلہ نہیں۔
سپریم کورٹ نے pmdc کو اسکی اصل حالت میں بحال کر دیا اور جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں نئی کونسل تشکیل دے دی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ،  ان تمام فریش گریجوایٹس نے لائسنس کے لیے pmc آفس میں فارم اور فیس جمع کروائی تھی، وہ pmdc میں ٹرانسفر ہوتی(جیسے کہا گیا تھا) لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا۔ بحالی کے بعد pmdc نے پریس ریلیز جاری کیا کہ تمام فریش گریجویٹس ہاؤس جاب کے لائسنس کے حصول کے لیے دوبارہ فارم اور فیس جمع کروائیں۔

ایک اندازے کے مطابق تقریباً بیس ہزار نئے ڈاکٹرز نے لائنس کے لیے pmc میں فارم جمع کروائے تھے۔ اگر ڈرافٹ بنوانے کی فیس جمع بھی کریں تو تقریباً ہر ڈاکٹر نے pmc کے آفس میں فارم جمع کروانے کے لیے 1500 روپے دئیے، اس حساب سے 20 ہزار ڈاکٹرز نے کوئی تین کروڑ روپے pmc میں جمع کروائے۔
فریش گریجوئٹس کے یہ تین کروڑ کہاں گئے، کہاں خرچ ہوئے کوئی نہیں جانتا۔ جو لوگ دور دراز علاقوں سے اسلام آباد فارم جمع کروانے آئے، وہ خرچہ علیحدہ ہے۔

سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ، تمام ڈاکٹرز کو اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ آپ کے پیسے ضائع نہیں ہوں گے، تو یہ یقین دہانی پوری کیوں نہیں کی گئی؟ وہ پیسے کہاں گئے؟ pmc کا وہ دفتر، جس نے پیسے لیے، وہ وزارتِ  صحت کے ماتحت تھا، وزارتِ  صحت اس معاملہ میں چپ کیوں ہے۔؟

ڈاکٹرز پہلے pmc فارم جمع کروانے اسلام آباد گئے، اب وہ دوبارہ فارمز جمع کروانے pmdc جائیں۔کرونا کی وجہ سے ویسے ہی پابندیاں ہیں اور کورئیر کمپنیاں منہ مانگے دام وصول کر رہی ہیں۔ تمام فریش گریجویٹس کی حق حلال کی  کمائی پر دن دیہاڑے ڈاکہ مارا گیا، کسی کے سر پر جوں تک نہیں رینگی۔

وزراتِ  صحت نے دن دیہاڑے  تین کروڑ سے زائد کا غبن کیا ہے۔ میں حیران ہوں،نیب جو پچاس لاکھ کی کرپشن پر ریفرنس دائر کر دیتا ہے، وہ اس معاملے  میں چپ کیوں ہے؟؟ تحریک انصاف کا تو نعرہ ہی کرپشن کے خلاف جنگ تھا، اب وزارتِ  صحت نے جو کرپشن کی ہے، اس کا جواب کون دے گا؟

میری وزیراعظم عمران خان  سے درخواست ہے کہ وہ اس سنجیدہ معاملے پر اپنے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مزرا سے جواب طلب کریں۔ تمام ڈاکٹرز کی جیب پر ڈاکہ  ڈالنے والوں کو جیلوں میں ڈالا جائے۔ چیف جسٹس، جسٹس گلزار جو کہ ہر معاملہ میں سوموٹو نوٹس لیتے ہیں، وہ اس بات کا نوٹس کب لیں گے؟؟

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل جسٹس (ر) اعجاز افضل سے بھی خصوصی درخواست ہے کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں، جن ڈاکٹرز نے لائسنس کے لیے فیس دوبارہ بھری ہے، ان کو ان کی پہلی فیس واپس کی جائے یا کسی اور طریقے سے ان کو compensate کیا جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply