• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سگمنڈ فرائیڈ: بابائے نفسیات کےنظریات کاتعارف(7,آخری حصّہ)-عدیل ایزد

سگمنڈ فرائیڈ: بابائے نفسیات کےنظریات کاتعارف(7,آخری حصّہ)-عدیل ایزد

۲۔مراجعت یا رجعت (Regression)
بعض اوقات ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی شخص کی لبیڈو ایک خاص سطح پر پہنچ کر،کسی خوف یا تشویش میں مبتلا ہو کر واپسی کا سفر شروع کر دیتی ہے۔یا یوں کہ یہ ایک ایسی ذہنی کیفیت ہے کہ جب نفسی قوت ارتقائی منزل سےاچانک واپسی،ابتدائی منازل کی طرف اپنا سفر شروع کر دیتی ہےچونکہ فرائیڈ کے نزدیک انسانی ذہن میں نزول کی بے پناہ قوت ہوتی ہے۔ اس واپسی کے سفر کو مراجعت کہا جائے گا۔

بقول ڈاکٹر سلیم اختر:
بعض اوقات طفلانہ جنسیت سے وابستہ پوری طرح سے لا شعور میں نہیں دبائی جا سکتیں اور کیونکہ دباؤنا مکمل اور ناکافی ہوتا ہے اس لیے وہ شعور میں آنے کے لیے موقعہ کی منتظر ہوتی ہیں جوں ہی کوئی خاص واقعہ ہوا تو یہ فوراً اس واقعے سے پیدا شدہ تاثرات کی آڑ لے کر شعور پر قابض ہو جاتی ہیں اور فرد کو اپنے رنگ میں رنگ کر پھر بریلی کی طرف الٹا دیتی ہیں۔
کسی بھی فرد کےلیےزندگی کا تلخ حقائق کا سامنا نہ کر سکنے کی صورت میں’’مراجعت‘‘ فرار کا ایک ذریعہ ہےچونکہ بچپن میں اسے ایسی پریشانیاں نہیں تھیں جو اب تھیں۔ بنیادی طور پر یہ وہ حالت ہے جس میں ’’لبیڈو‘‘،’’طفلانہ جنسیت‘‘ کے دور کی یاد تازہ کر دیتی ہے۔مثال کے طور پر کوئی نا خوشگوار یا ہیبت ناک واقعہ فرد کو ذہنی طور پر اتنا متاثر کرتا ہے کہ فرد اس معروضی خارجی حقیقت سے متنفر ہو جاتاہے اور اس صورتحال سے منہ موڑ کر بچپن کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ اس کی مثال اس فرد کی سی ہے جو کسی لڑکی کی بے وفائی کی وجہ سے تمام عورتوں سے نفرت شروع کردیتا ہے۔اس طرح فرد خود کو مخالف جنس کے قابل نہیں سمجھتا اوروہ ’’طفلانہ‘‘ کے اطوار اپنا لیتا ہےجیسا کہ’’خود جنسیت‘‘اور’’ہم جنسیت‘‘ہے،جس سے ہر بچہ بچپن میں گزرتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ کسی ذہنی بیمار کو یہ عارضہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ذہنی طور پرصحت مند فرد بھی اس صورتحال سے دوچار ہو سکتا ہےتاکہ اپنی یا تشویش میں کمی کر سکے۔اس کی کئی صورتیں ہیں۔مثلاً ًًناخن چبانا،شراب سگریٹ نوشی،مشت زنی وغیرہ۔ اس طرح ’’مراجعت‘‘وہ کیفیت یاصورت ہےجس میں فردذہنی طور پر ماضی کی اس حالت سفر کرتا ہے جہاں اسے مکمل آسودگی حاصل تھی۔یہ تمام عمل لا شعوری ہوتا ہے جس کا احساس فرد کو نہیں ہوتا ہے۔اس لحاظ ’’مراجعت‘‘نفسیاتی ارتقاء کو پہنچ کر پھر ابتدائی رجحان کی طرف سفر کرنے،لوٹنےیا پلٹنے کا نام ہے۔
۳۔انتقال،استبدال(Displacment)
’’اڈ‘‘ میں موجود جنسی توانائی سیال نوعیت کی ہوتی ہے۔جنس کی جبلت اپنی تشفی اور تسکین کے لیے اسے مختلف شاہراوں پر گامزن رکھتی ہےچونکہ جبلتوں کا مقصد حالت تشویش اور ذہنی اطناب سے چھٹکارہ حاصل کرنا اور جنسی توانائی کو نکاسی فراہم کرناہوتا ہے۔توانائی کا اخراج ہی جبلت کی تسکین کا باعث ہوتا ہےچونکہ اس سے لذت کا احساس ہوتا ہے۔اپنی تسکین کے لیے جبلت پہلے کوئی نہ کوئی معروض یا ہدف تلاش کرتی ہے،توانائی کا رخ بھی اسی طرف مڑ جاتاہے۔اس میں یہ بھی خوبی ہوتی ہے کہ ایک معروض کی عدم دستیابی میں جنسی توانائی اپنا رخ دستیاب وسائل کی جانب موڑ لیتی ہے۔اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ معروض بدل گیا ہے چونکہ مقاصد اپنی جگہ جوں کے توں رہتے ہیں ۔یہ تو محض جنسی توانائی شعور کو چکمہ دینے،بہروپ بدلنے کے لیے ایک قالب سے دوسرا قالب اختیار کرتی ہے۔اس عمل کو استبدال کہا جاتا ہے۔بقول ڈاکٹر نعیم احمد:اڈکی توانائی سیال نوعیت رکھتی ہےکیونکہ یہ کوئی بھی قالب اختیار کر سکتی ہےاور کسی بھی ہدف پر مرکوز ہو سکتی ہے۔توانائی کی اس صفت کو استبدال(Displacment) کہا جاتا ہے۔
جنسی توانائی کا ایک قالب سے دوسرے قالب میں ڈھلنے (استبدال)کا سلسلہ دراز ہے یہ عمل بچپن سے ہی شروع ہوتا ہےاور جاری رہتا ہے۔کھلونے،علمی۔ادبی،سیاسی،معاشی مشاغل استبدال ہی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
۴۔کج روی یا بے راہ روی(Perversion)
اس سے مراد کوئی فرد نارمل زندگی سے ہٹ کر فروعی جنسی مقاصد کو اہمیت دےاور ان سے ہی لذت اورآسودگی حاصل کرنے کو ترجیح دے اور یہ عادت مستقل ہو جائےتو نفسیاتی اصطلاح میں یہ کج روی کے زمرے میں آتا ہے۔ کج روی سے مراد ذہنی پرا گندگی ہےجب فرد جنسی معاملات میں عمر کا ساتھ ساتھ اعتدال نہیں برتتا،اپنے طفلانہ رجحانات کو پوری طرح دبا نہیں سکتا تو صحت مند جنسی زندگی سے رو گردانی کرنے لگ جاتا ہے۔مثلاً مخالف جنس کی دستیابی کے باوجود جلق لگانا۔فرائیڈ کے نزدیک ایسے افراد کے لاشعور میں کچھ ایسے واقعات موجود ہوتے ہیں جن کے ساتھ کوئی واہمہ وابستہ ہوتا ہےجو اچانک لاشعور میں بیدار ہو کر جنسی تسکین عطا کرتا ہے۔

۵۔ارتفاع،ترفع یا تصعید(Sublimation)

Advertisements
julia rana solicitors london

فرائیڈ کے افکار ونظریات میں ارتفاع کی بڑی اہمیت ہے اور وہ اس پر بہت زور دیتا ہے۔یہ استبدال ہی کی ایک صورت ہے۔جنسی توانائی خالص جنس سے علیحدہ ہو کراپنا رخ غیر جنس کی طرف موڑ لیتی ہےاور اس کے نتائج تعمیری ہوتے ہیں ۔یعنی وہ جنسی قوت جو استبدال کے زیر اثر اظہار کاکوئی راسطہ نہ پا رہی تھی اس نے اپنی نکاس کا ایک اور استہ نکال لیا ہے جسے جنس سے دور کا بھی واسطہ نہیں مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ جنسی جبلت کے مقاصد میں یہاں بھی فرق نہیں آتا وہ اس سے بھی وہ تسکین کا پہلو نکال ہی لیتی ہے تا ہم جنسی تسکین کا یہ سب سےزیادہ بالواسطہ طریقہ۔
جنسی توانائی جن غیر جنسی مشاغل یا ذرائع میں اظہار کے راستےتلاش کرتی ہےان میں فن،ادب،سماجی واصلاحی کام شامل ہیں۔اسی عمل سے ہی تہذیب وتمدن پھلتے پھولتے اور ترقی کرتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر نعیم احمد:
جبلی توانائی جب کسی مخصوص شےیا فرد پر مرتکز ہونے کی بجائے تہذیبی،فکری،سماجی یا اصلاحی دھارے میں بہنے لگے تو اس سے فکر و فن کے شہ پارے تخلیق پاتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ تصعیدی کاموں میں اڈ کی جبلی تسکین کا مقصد وہی رہتا ہے جو استبدال کی مختلف صورتوں میں ہوتا ہے،تاہم ذریعہ اظہار بدل جاتا ہےاور موسیقی،شاعری،ادب،مصوری وغیرہ میں اس کا اظہار ہونے لگتا ہے۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے کہ یہ جنسی تسکین کا سب سے زیادہ بالواسطہ طریقہ ہے۔ارتفاع کے عمل سےسماجی و ثقافتی ترقی اپنی جگہ اور اس سے جنسی جبلت کی جزوی تسکین ہونے کے باوجود جبلت کے بنیادی تقاضے تشنہ اور بہت حد تک نا آسودہ رہتے ہیں،جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ فنکار اور ادیب کی شخصیت غیر متوازن،اختلال اور انتشار کا شکار رہتی ہے۔مکمل تسکین نہ ہونے کے باوجود اس بات سے انکارنہیں کہ اس سے تہذیب و ثقافت کی ترقی ہوتی ہے۔
تحلیل نفسی (Psycho-analysis)
تلازم افکار کو ایسے طریقے سے بروئے کار لانے کو تحلیل نفسی کہا جاتا ہے جس میں دبے ہوئے خیالات و جذبات اور ان کا اقرار فرد کے ذہن میں موجود کشمکش کو رفع کر دیتا ہے۔ قومی انگریزی اردو لغت میں ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں:
psychoanalysisتحلیل نفسی،نفسی تجزیہ،کسی فرد کے تحت الشعوری خیالات کا مطالعہ یا تجزیہ کرنے کا طریقہ ہے،جیسے آزادانہ ربط و ضبط اور خوابوں سے ظاہر شدہ۔ان خفیہ ذہنی تنا قضات کا پتہ چلانے کے لیے جو جسم اور ذہن میں انتشار پیدا کر سکتے ہیں۔
اس طریقہ علاج میں مریض کا معالج کے ساتھ ا عتماد اور تعاون کا رشتہ ضروری ہے ۔مریض کے لیے ضروری ہے کہ وہ معالج کی ہر بات کو توجہ سے سنے، سمجھے اور من و عن اس پر عمل کرے ۔ تحلیل نفسی کا پہلا کام یہ ہے کہ دبائے ہوئے تصورات کو لاشعور سے نکال کر شعور میں لائے تاکہ مریض ان کو عقلی طور پر سمجھ کر ان کا حل تلاش کر سکے ۔تحلیل نفسی کے وظائف میں یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ خیالات و تصورات کی زنجیر شعور سے لاشعور تک کچھ اس طرح جوڑی جائے کہ لاشعور میں دبے ہوئے پراگندہ الجھے ہوئے خیالات شعور میں کھچے چلے آئیں۔اس طرح فرد جن ذہنی تناؤ کا شکار ہوتا ہے تناؤ کی وہ رسی ڈھلی اور کمزور پڑھ جاتی ہے ۔
ماہرین تحلیل نفسی ابتدا ء میں گویائی  (Talking cure)طریقہ علاج کے ذریعے مریضوں کا علاج کرتے تھے ۔اس اصطلاح کا نام فرائیڈ کی ایک مر یضہ جس کو اسی طریقہ علاج کے ذریعے آرام آیا تھانے وضع کی۔کیونکہ اس نے اپنی بیماری کے بارے میں کھل کر گفتگو کی جس کی وجہ سے اسے اس صدمے سے نجات ملی ۔جس کی وجہ سے وہ ہیجانی کیفیت میں رہتی تھی ۔دیکھا جائے تو تحلیل نفسی کی عمارت اسی طریقہ علاج پر استوار ہے ۔ اس طریقہ کار میں کچھ مشکلات بھی تھیں ۔مثال کے طور پراس میں طوالت ہے اور ہر فرد کی اندر داخلی مزاحمتیں موجود ہوتی ہیں ۔جو فرد کو تلخ حقائق بتانے کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ہے۔جس کی وجہ سے مریض سادہ انداز میں بیاں کے بجائے بات کو الجھا دیتا ہے ۔دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ زندگی کے معاملات بہت الجھے ہوئے ہوتے ہیں ۔جس کی وجہ سے اصل واقعات کا فوراً بیان ناممکن ہے ۔اس لیے فرائیڈ نے شارکوٹ کے مشہور طر علاج ہپناٹزم کو ’’گویائی علاج‘‘کے ساتھ شامل کرنے کی تجویز پیش کی اس کے پیش نظر یہ حقیقت تھی ہپناٹزم شعور کی حدود کو وسیع کر دیتا ہے ۔فرد کی مزاحمتیں اور داخلی رکاوٹیں ڈھیلی پڑ جاتی ہیں۔جس سےلاشعور ی تصورات وخیالات آسانی سے شعور میں آجاتے ہیں ۔ بیداری کی حالت میں کوئی فرد نا خوشگوار یادوں کا تذکرہ کسی دوسرے شخص کے سامنے خواہ وہ اس کا معالج ہی کیوں نہ ہو آسانی سے نہیں کرسکتا ۔جس قدر وہ خوابی حالت میں کرسکتا ہے ۔ایک حد تک فرائیڈ نے اس طریقے کو آزمایا جس میں مریض کو ہپنا ٹز کر کے ان علاما ِت مرض کے متعلق سوالات کیے کہ فلاں مرض کی علامات کا ظہور کیسے ہوا ۔اس کی وجوہات کیا تھیں ۔فرائیڈ نے برائر کے ساتھ مل کر اس کا تجربہ کیا اور تحقیقات میں اس کے دور رس نتائج سامنے آئے ۔انہوں نے اس طریقہ علاج کو تحلیل نفسی کے باب میں مستقل جگہ دی اور اسے تزکیائی طریقہ کار کا نام دیا ۔ ابتدا میں ہپناٹزم او ر بعد میں تنویمی کیفیات کے ذریعے یاداشت اور احاطے کو وسیع کیا جانے لگا یہ طریقہ کا ر اس وجہ سے اختیار کیا گیا تاکہ فراموش شدہ واقعات جلد یاد آجائیں لیکن جلد ہی اس بات کا ادراک ہو گیا کہ اس کی ضرورت نہیں بلکہ مکمل سکون اور خاموشی کی حالت میں اگر مریض بھولی بسری یادوں کو یاد کرے اور مناسب اوقات پر ان کے متعلق گفتگو کرے تو اس سے بھی وہی نتائج حاصل ہوتے ہیں جو تنویمی کیفیات کے زیر اثر گفتگو کرنے سے حاصل ہوتے ہیں ۔اس میں یہ فائدہ تھا کہ مریض ان واقعات کو یا دکرنے کے دوران مکمل ہوش و حواس میں ہوتا ۔اس صورت میں وہ ان جذبات کو صحیح طو ر پر محسوس کر سکتا جن کو دبایا گیا تھا ۔تزکیے کے اس عمل سے گزرنے کے بعد مریض کے مرض میں افاقہ ہوجاتا۔لیکن اس کا تمام دارومدار معالج اور مریض کے درمیان تعلق پر تھا ۔اس طرح یہ طریقہ کسی حد تک ترغیبی طریقہ کار بن گیا تھا ۔معالج اور مریض کے درمیان تعلقات کشیدہ ہونے کی صورت میں یہ طریقہ بے سود ثابت ہوتا اور مریض کی تمام علامات دوبارہ ظاہر ہو جاتیں تھیں ۔بالکل ایسے ہی جیسے وہ کبھی ختم ہی نہیں ہوئیں تھیں ۔
ہپناٹزم میں فرد کی ذہنی ساخت کو ایک طرف رکھ کر اسے تنویمی کیفیات مبتلا کیا جاتا تاکہ لا شعوری راز معلوم کیے جا سکیں اور تحمکانہ انداز میں ترغیب دی جاتی ہے کہ مریض کوئی کام کرے یا اپنی کسی کیفیت کو ختم کرے ۔اس میں بھی ایک خرابی یہ تھی کہ مریض بے اعتمادی کا شکار ہو کر معالج سے بددل ہوجاتا ۔کیونکہ مریض کو یہ گمان ہوتا کہ معالج نے اسے دھوکہ دے کر بے ہوشی کے عالم میں اس کے راز معلوم کر لیے ہیں ۔مندرجہ بالا طریقہ علاج جو جزوی طور پر کسی نہ کسی طرح تحلی ِل نفسی کے ساتھ جڑے تو رہے لیکن فرائیڈ ان سے کبھی بھی مطمعن نہ ہوا ۔ تحلیل نفسی میں مریض مکمل ہوش و حواس میں رہتا، معالج اس کا اعتماد حاصل کرتا ،معالج مریض کے کردار اور شخصیت کے اصل سر چشمے سے واقفیت حاصل کرتا اور مریض کی شخصیت کے تمام پہلووں کو مریض کے سامنے لاتا۔اس سلسلے میں نہایت احتیاط سے کام لیا جاتا کہ مریض پر کسی قسم کے خیالات و تصورات کو جبراً نہ ٹھونسا جائے ۔تحلیل نفسی کے دورا ن ہمیشہ یہ کوشش کی جاتی کہ مریض کی انا کے مختلف غیر شعوری طریقوں کو دور کرتے ہوئے اس کے اندر اتنی طاقت پیدا کی جائے کہ وہ اپنی جبلی خواہشات کو برا سمجھنے ،ان سے ڈرنے، خوف کھانے اور دبانے کے بجائے ان کو درست اور فطری سمجھے اور ان خواہشات کی تسکین کے لیے وہ حقیقت میں ایسے ذرائع تلاش کرے جو اخلاقی اور معاشرتی نقطہ نظر سے قابل قبول ہوں ۔
طویل تحقیق اور تجربات کے ساتھ ساتھ فرائیڈ نے مختلف طریقہ علاج اپنانے کے بعد بالآخر ایسے لائحہ عمل کو اپنے طریقہ علاج میں جگہ دی جسے ابتدا میں اس نے غیر منقطع تلازمی طریقہ (Continuous association method) کہا اور بعد میں اسے آزاد تلازمی طریقہ(Free association method) کا نام دیا۔
تحلیل نفسی کے لیے دو قسم کے طریقہ کار استعمال کیے جاتے ہیں ۔جو کہ درج ذیل ہیں :
الف۔ تلازمی طریقہ  (Association Method)
اس طریقہ کا ر میں مریض کو آرام دہ بستر پر لٹا دیا جاتا ہے ۔معالج اس کے قریب بیٹھ جاتا ہے اور مریض کو کوئی خیال یا کوئی لفظ گفتگو کے آغاز میں دے دیتا ہے اور اس سے وابسطہ اس کے خیالات کو سنتا اور مشاہدہ کرتا ہے ۔مریض کویہ ہدایت کی جاتی ہے کہ اس خیال یا لفظ سے وابستہ کو کچھ اس کے ذہن میں ہے بلا کم و کاست بیان کر ڈالے اور اس میں اگر کوئی غیر اخلاقی بات بھی ہو تو اس کو بھی پوری ایمان داری کے ساتھ بیان کردے ۔ضروری ہے کہ معالج جو لفظ مریض کو گفتگو کے لیے دیتا ہے ۔مریض اس سے وابستہ تصورات کو فوراً بیان کرے تاکہ لاشعوری خیالات کو جلد از جلد باہر نکلنے کا موقع ملے ۔پھر ان تصورات سے وابستہ تصورات تک رسائی حاصل کی جاتی ہے اور پھر ان تصورات سے مزید تصورات کی طرف آخر کار یہ سلسلہ لاشعور تک پہنچ جاتا ہے ۔ابتدائی ردعمل میں مریض بظاہر سطح پر موجود خیالات کا اظہار کرتا ہے اور آہستہ آہستہ وہ گہرائی میں وہ غوطہ زن ہوتا جاتاہے ۔اس سلسلے میں جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ مریض با آسانی ان تصورات و رجحانات سے آزادی حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ان خیالات کو چھپائے رکھے ۔اس کی کئی وجوحات ہیں مثلاًوہ ایک معاشرے کا فرد ہے جس کی کچھ روایات اور قوانین ہیں ،کچھ اخلاقی اصول ہیں جنہیں وہ تسلیم کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اندرونی طور پر اپنے خیالات کو معالج کے سامنے جوں کے توں بیان نہیں کر پاتا ہے۔اس دوران وہ یہ بات کہ کر معالج کو ٹال دیتا ہے کہ اس لفظ یا خیا ل سے وابستہ کوئی تصور یا د نہیں آرہا ۔اس طرح وہ اپنے خفیہ رازوں سے پردہ نہیں اٹھنے دیتا ۔اس طریقے کی بنیاد شعور اور لاشعور کی کش مکش پر استوار ہے ۔ظاہر ہے کہ شعور ،لاشعور سے ان تصورات کے کے اخراج کو پسند نہیں کرتا جن کو وہ پہلے ہی ناپسندیدہ قرار دے کر نکال چکا ہے ۔اندرونی کش مکش کی بنا پر خیالات میں رکاوٹ کے عمل کو مزاحمت کا نام دیا گیا ہے۔مزاحمت کی صورت میں معالج مریض کے حوصلہ افضائی اور اس میں اعتماد پیدا کرتا ہے۔جس سے مریض مزاحمت پر قابو پا لیتا ہے اور یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہتا ہے ۔یہا ں تک کہ تمام لاشعوری مواد شعور میں آجاتا ہے اور جب مریض کو بیماری کا علم ہو جاتاہے تو مرض کی تمام علامات ختم ہوجاتی ہیں ۔ فرائیڈ نے آزاد تلازأہ خیال کا بنیادی تکنیکی اصول یہ بیان کیا ہے کہ مریض کو ایسی حالت میں رکھا جائے جس میں وہ نہایت توجہ اور غیر جانب داری سے اپنے تصورات اور خیالات کا مشاہدہ کرتا جائے اور جو خیالات اس کے شعور میں آئیں بلاروک ٹوک بیان کرتا جائے ۔باوجود اس کے وہ ناخوش گوار ،تکلیف دہ اور نامناسب ہوں ،خواہ وہ تصورات مریض کے لیے احمقانہ اور بے معنی کیوں نہ ہوں ،خواہ وہ کتنے ہی غیر ضروری ہوں اور موضوع سے ان کا کوئی واسطہ نہ ہو ۔ اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن سے وابستہ تصورات کا مریض اظہار نہیں کرتا یابعض سوال ایسے ہوتے ہیں جن کا مریض جواب نہیں دینا چاہتا کیونکہ اسے داخلی مزاحمت اسے ایساکرنے پر مجبور کرتی ہے۔اس صورت میں مریض کے اندر اس کے جذباتی رد عمل کو نوٹ کرنے کے بعد مختصر وقفے کے بعد پھر وہی لفظ دہراناچاہیے ۔ہو سکتا ہے مزاحمت کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی ہو۔الفاظ کی فہرست پڑھنے کے دوران معالج کو نہایت محتاط اور ہوشیار رہنا چائیے تاکہ کوئی بھی مشاہدے سے چوک نہ جائے۔ معالج کا پاس ایک سٹاپ واچ کا ہونا بھی ضروری ہے تاکہ مریض کے جواب اور رِدعمل کا دورانیہ تحریر کیا جا سکےکہ کس قدر وقفے کے بعد اس نے کسی مخصوص الفاظ سے متعلق اپنے خیال کا اظہار کیا ہےاور کتنی دیر اس نے اپنی داخلی مزاحمت پر اس پر قابو رکھا ہے۔معالج کی مرتب کردہ فہرست کو ایک بار سنانے کے بعداور مریض کے تصورات،خیالات اور رِدعمل نوٹ کرنے کے بعد دوبارہ یہی عمل دوہرایا جائےاور مریض کو بھی اس پر رضا مند کرنا ضروری ہے۔اس عمل کے دوبارہ کرنے سے یہ فائدہ ہو گا کہ داخلی مزاحمت کی وجہ سے بہت سےسوالوں کے مطلوبہ جواب نہیں ملے ہوں گے اب کے بار مزاحمت پہلے سے کم ہو گی تو جو جواب تشنہ رہ گئے تھے وہ کچھ زیادہ تفصیل سے مل جائیں گے۔نیز مریض کو تاکید کرنا بھی ضروری ہے کہ جو اس کے ذہن میں آئے مذکورہ لفظ سے متعلق وہ بغیر رکے اسے بیان کرتا چلا جائے۔اس طرح پہلے سے حاصل شدہ معلومات اور دوبارہ حاصل شدہ معلومات کا موازنہ بھی سود مند ثابت ہو گا جس سے مریض کی ذہنی کشمکش کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس عمل میں اس بات کی بڑی اہمیت ہوتی ہےکہ جو لفظ فرد میں تحریک پیدا کرتا ہےیعنی ایسا لفظ جو فرد میں نا پسندیدگی کا احساس یا نا خوشگوار احساس کو جنم دیتا ہے یا پھر کسی مخصوص لفظ کے ساتھ کوئی خاص تصور یا کوئی خیال جڑا ہے جس بیان کرنے میں اسے دقت ہوئی ہے اس پر غور کرنا ضروری ہے۔وہ لفظ جو فرد میں کسی قسم کے کے جذبے کو بیدار نہیں کرتا بہ نسبت اسلفظ کے جو زیادہ شدت کے ساتھ فرد کی یاداشت پر مرتسم ہوتا ہے یہ خیال درست نہیں ہے کیونکہ ہر لفظ فرد کے کسی نہ کسی جذ باتی پہلو کو بیدار کرتا ہے۔اس لیے داخلی ہیجان کسی قدر معمولی کیوں نہ ہو اسے اس لفظ سے اور اس سے وابستہ تصور پر توجہ مرکوز رکھنے سےروکتا ہےاور وہ بار بار کوئی غیر متعلقہ تصور پیش کر کے لاشعور کے حصار کو ٹوٹنے سے بچا لیتا ہے۔اس لیے وہ تحریکی الفاظ جن پرفرد اپنا ر ِدعمل قدرے دیر سے پیش کرتا ہے دو مختلف اوقات میں کسی ایک ہی لفظ کے متعلق فرد کا ر ِدعمل مختلف ہوتا ہے ۔لہذا وہ تحریکی الفاظ فرد کے لا شعور کے لیے نا خوشگوار اور تنقیدی ہوتے ہیں ۔ اس تلازمی طریقے فرد کی تشویش،الجھن اور ذہنی بیمار کو سمجھا جا سکتا ہے۔
ب۔خوابی طریقہ (Dream interpretation)
خوابوں کی تشریح و تحلیل اورتعبیر “تحلیل تفسی” میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔اس متعلق خود فرائیڈ لکھتا ہے:
خوابوں کی تشریح و تحلیل نفسی دراصل لا شعور کی تشریح کے مترادف ہے ۔ یہ تحلیل نفسی کا سب سے کار آمد ذریعہ ہے اور یہ ایک ایسی شے ہے جس کے بارے میں ہرکار کن کو تعلیم و تربیت حاصل کرنی چائیے اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ تحلیل نفسی کیسے کی جاسکتی ہے تو میں اسے خوابوں کے مطالعے کا مشورہ دوں گا ۔
فرائیڈ کے نزدیک خواب فرد کے دبے ہوئے طفلانہ جذبات ،رجحانات اور خواہشات کی تکمیل کا بہترین اور با پردہ ذریعہ ہیں۔مریض کے لاشعور میں چند ایسی خواہشات ہوتی ہیں جن کی آسودگی کی راہ میں سماجی و اخلاقی اور جنسی اقدار بہت بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں ۔اس لیے نیند کے دوران جب محتسب کی گرفت ڈھیلی پڑتی ہے تو لا شعور میں موجود طفلی ، جبلی خواہشات مختلف صورتوں میں خواب بن کر مختلف روپ دھار کر چوری چھپے اپنے مقصد کی کامیابی میں جٹ جاتی ہے ۔
تحلیل نفسی میں لازمی ہو جاتا ہے کہ مریض کے ہر خواب کی تحلیل و تشریح کی جائے تاہم اس تحلیل میں کئی ایک پچیدگیاں اور مشکلات بھی ہو سکتی ہیں ۔اکثر و بیشتر مریض کے اولین خواب میں ہی اس کی لاشعور ی خواہشات کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے ۔اور ان کی تعبیر با آسانی کی جا سکتی ہے ،لیکن اس سلسلے میں ایک مشکل یہ بھی ہے کہ ایک خواب کی تحلیل میں کئی دن درکار ہوتے ہیں اور اس دوران مریض کئی اور خواب بھی دیکھ لیتا ہے جس کا ذکر وہ اپنے معالج سے کرتا ہے ۔اور پھر یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔ایک دشواری یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بعد کے خواب زیادہ واضح نہیں ہوتے اور بعض اوقات ایسے الجھے ہوئے ہوتے ہیں کہ مختصر وقت میں ان کی تخلیل نہیں کی جا سکتی ۔ معالج کو چونکہ ایک خواب کی تحلیل میں کافی وقت درکار ہوتا ہے جبکہ مریض کے خوابوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔اس لیے معالج کو اس بات کی طرف توجہ دینا بھی لازمی ہےکہ کہیں ایسا تو نہیں کہ مریض کے لاشعور نے اپنی مزاحمت کو استوار اور مضبوط کرنے کے لیے اورمعالج کو گمراہ کرنے کے لیے یہ چکر تو نہیں چلایا ۔ خوابوں کی تحلیل و تشریح آ زاد تلازمہ کے طریقے کار سے بہت زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہے ۔ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مریض کو جب یہ پتا چلتا ہے ۔کہ اس کے تجزیہ و تحلیل کا تمام تر انحصار اس کے خوابوں کے ذخیرے پرہے تو وہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ خوابوں کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے اور کبھی یوں بھی ہوا ہے کہ لا شعور تحلیل کے کام کو رکوانے کے لیے عملاً گمراہ کن خواب بیان کر کے تحلیل نفسی کے عمل کو غلط سمت موڑ دیتا ہے ۔اس سلسلے میں ان خوابوں کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہو جاتی ہے جو مریض بچپن سے دیکھتا آ رہا ہو یا بچپن کے وہ خواب جن کو وہ کبھی بھلا نہ سکا ہو۔ تحلیل نفسی کا پہلا اور بنیادی اصول یہ ہے کہ تجزیے کے دوران مریض ان تصورات اورخیالات کو صحیح سمجھے جواس کی سطح شعور پر آ گئے ہیں کیونکہ محض اس صورت میں معالج یہ سمجھے گا کہ کس الجھاو سے کو ن سی مزاحمتیں مریض کے اندر پیدا ہو گئی ہیں اورمریض کس انداز سے شعوری ردعمل پیش کر رہا ہے ۔ تحلیل ِنفسی چونکہ نہایت صبر آزما کام ہے اس لیے معالج کو اس عمل کو آہستہ آہستہ بڑھانا چاہیے اور معالج کو معمولی سے معمولی بات کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔اگر پہلی نشست میں معالج کو مطلوبہ تعبیر حاصل نہ ہو تو اگلے د ن اسے پھر اس نکتے سے کام شروع کرنا چائیے جہان سے اس نے اس سےپہلے چھوڑ ا تھا ۔اس تمام دورانیے میں اگر مزید کوئی اہم واقعہ پیش آتا ہے تو اسے بھی اس میں شامل کر لینا چائیے ۔اس طرح کو ئی اور خواب جو مریض نےاسی دوران دیکھے ہیں ان کو اہمیت دینا بھی لازمی ہے ۔ مریض کو اس کی خوابوں کی اہمیت سے آ گاہ نہ کیا جائے بلکہ اس کہا جائے کہ وہ خواب دیکھے یا نہ دیکھے تجزیے کا عمل اس کے خوابوں کے بغیر بھی چل سکتا ہے ۔تاکہ مریض جان بوجھ کر داخلی مزاحمت کو نہ بڑھائے یا پھر خوابوں کا سلسلہ ہی بند نہ ہو جائے ۔ بعض اوقات مریض کا پہلا خواب جو کہ تفصیلی بھی ہوتا ہے اس کی تمام تر نیورائیت کی تشخیص ہوتا ہے کیونکہ اس وقت مریض کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ معالج اس کی لا شعوری خواہشات کو جاننے کی کوشش میں لگا ہے۔ عموماً تحلیل نفسی کی تین چار نشتوں کے بعد مریض اس کے خوابوں کے بارے میں پوچھا جاتا ہے ۔اُسے یہ بات سمجھا ئی جاتی ہے کہ جس طرح اور جن جن چیزوں کو اس نے خواب میں دیکھا ہے اُسے بلا کم و کاست وہ بیان کر دے۔علاوہ ازیں آئندہ کے خواب بھی وہ یاد کرنے کی بھر پور کوشش کرے کیونکہ اکثر و بیشر نیوراتی مریض آنکھ کھلنے کے بعد اپنے خواب بھول جاتے ہیں اور اس کہ وجہ شاہد یہ ہوتی ہے کہ مریض اپنے لاشعوری رازوں کو محفیظ رکھنا چاہتا ہے۔بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ مریض غلط بیانی کرتا ہے کہ اس نے کوئی خواب نہیں دیکھا ۔مریض کے ان خوابوں کو زیادہ اہمیت دینا اور دریافت کرنا چاہیےجو وہ بچپن سے دیکھتا آ رہا ہے۔ اس طرح بچپن اور بعد کے خوابوں کا موازنہ کر کے نہایت اہم حقائق حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔تحلیل نفسی کے دوران مریض کو زیادہ تنگ یا اس پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالناچاہیے کہ وہ عدم تعاون کی طرف مائل ہوجائے ۔ تحلیل تفسی کے دو اہم مقاصد ہوتے ہیں ۔اول دبا ئے ہوئے مواد کو شعوری بنانا اور اسے لا شعور کےقید خانے سے نکال کر سطح شعور پر لانا تا کہ مریض خود بھی اپنی خواہشات کا ادراک کر سکے ۔دوسرا مزاحمت کو ختم کرنا۔ تلازمی طریقہ علاج تحلیل نفسی کی اساس ہے لیکن اس طریقے کو اگر فوراً مریض پر لاگو کر دیا جائے تو اس سے بہت سی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں ۔جن کی وجہ سے مریض پریشان ہوجاتا ہےاور ابتدا ءہی سے اس کا لا شعور دفاعی صورت اختیار کر لیتاہے ۔ تحلیلی نفسی کا آغاز اگر تلازمی طریقے سے کیا جائے تو اس کے دو فوائد ہیں۔پہلا یہ کہ معالج مریض کی الجھن اور تشویش کو جلد بھانپ لیتا ہے علاوہ ازیں مریض معالج سے جلد مانو س بھی ہو جاتا ہے ۔جس کی وجہ سے مزاحمت ڈھیلی پڑ جاتی ہے ۔اس طرح اسے اپنے احساسات و جذبات کو معالج کے سامنے پیش کرتے ہوئے آسانی ہوتی ہے ۔
تحلیل نفسی کے دوران مریض کو باور کروایا جاتا ہے کہ دوران تحلیل وہ اپنے ذہن سے نکال دے کہ اس کے پاس معالج بھی بیٹھا ہے ۔اس طرح بھی ممکن ہے کہ معالج پردے کی اوٹ میں بیٹھ جا تاکہ مریض کو نظر نہ آسکے اور مریض کو ایک آرام دے کرسی یا صوفے پر لیٹا دیا جائے تاکہ وہ پر سکون رہے اور بیرونی دنیا سے اس کا وقتی طورپر تعلق ختم ہو جائے ۔ فرائیڈ کے نزدیک معالج کو مریض کی موجودگی میں تفصیلی یاداشت نہیں لکھنی چاہیے کیونکہ اس سے مریض کے ذہن پر نا خوشگوار اثرات پڑتے ہیں ۔ اور یہ بھی ممکن ہے مریض کی توجہ معالج کہ تحریر کی طرف ہو جائے اور اس کے خیالات جو تسلسل کے ساتھ بیان ہو رہے تھے تعطل کا شکار ہو جائیں ۔اس طرح خود معالج کی توجہ بھی منقسم ہو سکتی ہے ۔کیونکہ سننا ،سوچنا اور پھر تفصیلاًاحاطہ ِتحریر میں لانا نہایت مشکل کام ہے۔اس لیے اس دوران چیدہ چیدہ اہم باتیں تحریر کرنا لازمی ہوتی ہیں ۔ تحلیل نفسی کے کئی ایک اور بھی طریقہ کار ہیں تاہم مندرجہ بالا دونوں طریقہ کار مشہور اور کارآمد ہیں جن کے ذریعے خود فرائیڈ بھی علاج کرتا رہا ہے جس سے اسے خاطر خواہ کامیابی حا صل ہوئی ہے۔
مساکیت،سادیت (Masochism&Sadism)
اذیت پسندی،ایذا طلبی یا ایذا کوشی فرائیڈ کے’’نظریہ جنس‘‘ میں بہت اہم اصطلاح ہیں جن کا یہاں تعرف کروانا بہت ضروری۔
ایذا طلبی
یہ ایک ابنارمل جنسی رویہ ہےجس میں جنسی عمل کے دوران فریق ثانی یا جنسی ساتھی کے ساتھ مل کر جسمانی یا ذہنی اذیت،تکلیف اور درد برداشت کر کے لذت اور تسکین حاصل کی جاتی ہے۔اس جنسی کج روی کی مختلف صورتیں ہیں بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:ماسوکزم:جنسی کج روی جس میں مبتلا شخص جسمانی غلط کاری سےلطف اندوز ہوتا ہے،جسمانی یا جذباتی اذیت سےمحظوظ ہونے کی عادت،مرضیاتی خود اتلافی۔
ایذا کوشی بھی اسی اصطلاح کا ایک حصہ ہے جس میں فرد کسی طرح بھی آزار، تکلیف اور نقصان پہنچا کر تسکین حاصل کرتا ہے،جو کی ’’جبلت مرگ‘‘ کا ایک روپ ہے۔
سادیت پسندی
سادیت پسندی دراصل ایذا طلبی کی متضاد صورت یا رویہ ہے۔اس اصطلاح کے مطابق فریق ثانی یا جنسی ساتھی حتی کہ کسی غیر جنسی شخص کو آزار دے کر تسکین حاصل کی جاتی ہے۔بقول فرائڈ ’’موت کی جبلت‘‘ کے زیر اثر اگر اس کا رخ فرد کی ذات سے باہر کی طرف ہو جائے تو یہ خارجی دنیا میں کسی کو اپنا نشانا بناتی ہےاور اس سے فرد کی جنسی تسکین ہوتی ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی اس کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:سادیت:آزار دوستی،ایذا پسندی،دوسروں کوجسمانی یا ذہنی اذیت دے کر جنسی مسرت کا مریضانہ حصول،ظلم سے لطف اندوز ہونے کا رجحان۔
ان دونوں اصطلاحات کی تفصیل فرائیڈ جبلتوں خاص کر’’ جبلت موت‘‘ پر بحث کرتے ہوئے ’’سادیت پسندی‘‘ اور ’’مساکیت‘‘ کو بیان کرتا ہے۔
جبلت مرگ و جبلت حیات
جبلت مرگ و جبلت حیات سگمنڈ فرائیڈ کے افکار و نظریا ت میں جبلِت مرگ و جبلت حیات کو خاص اہمیت دی جاتی ہے ۔اس سے قبل کہ ہم ان اصطلاحات کا تفصیلی جائزہ پیش کریں مناسب ہوگا کہ پہلے جبلت کے مفہوم پر ایک نگاہ ڈال لی جائے ۔ڈاکٹر نعیم احمد جبلت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔
یہ پیدائشی یا خلقی رجحان ہے جو کہ نفسیاتی اعمال کی رہنمائی کرتاہے۔۔۔۔جبلت کے چار پہلوں ہوتے ہیں ۔یعنی ایک اس کا کوئی سر چشمہ ہوتا ہے ۔دوسرا کوئی مقصد ہوتا ہے ۔تیسراس کا کوئی معروض یا ہدف ہوتا ہے ۔۔۔۔
بھوک ،جنس ،خطرے سے بچاؤ کے علاوہ بھی کئی جبلیتں ہو سکتی ہیں لیکن ان کی تعداد بتانا مشکل ہے۔بقول فرائیڈ جتنی جسمانی اور عضواتی احتیاجات ہیں اتنی ہی جبلتیں ہیں کیونکہ جبلت ایک جسمانی ضرورت ہی کی ذہنی تصویر ہوتی ہے۔اس کے ساتھ فرائیڈ یہ بھی کہتا ہے کہ جبلتوں کی تعداد کا تعین کرنا ماہرین حیاتیات کا کام ہے ۔ فرائیڈ نے اپنے آخری دور کی تحریروں میں تمام قسم کی جبلتوں کی گروہ بندی صرف دو جبلتوں کے تحت کر دی اس کے نزدیک ایک جبلت حیات  (Eros of life) ہے ۔جب کہ دوسری کو جبلِت مرگ کا نام دیتا ہے ۔وہ خود ایک جگہ لکھتا ہے :۔
طویل شبہات اور تذبذب کے بعد ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ صرف دو بنیادی جبلتوں، جبلت حیات (Eros) اور جبلت تخریب کا وجود فرض کیا جائے ۔ان بنیادی جبلتوں میں ا ّول الذکر کا مقصد پیہم عظیم سے عظیم تر وحدتیں قائم کرنا اور ان کو اس طرح محفوظ رکھنا ہے ۔مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کا کام بہم جوڑنا،اس کے بر عکس مؤخر الذکر جبلت کا مقصد جڑے ہوئے رشتوں کو توڑنا اور تخریب کاری ہے ۔ ہم یہ فرض کر سکتے ہیں کہ جبلت تخریب کا آخری مقصد زندہ چیزوں کو غیر نامیاتی(Inorganic) حالت پر لوٹاتاہے اسی وجہ سے اسے جبلِت مرگ  Death instinctبھی کہتے ہیں ۔
جبلت حیات:
اس کے تحت وہ تمام جبلتوں کو اکٹھا کر دیتا ہے جو حیات آفریں اور زندگی بخش ہیں ۔تحف ِظ ذات اور اشاعت ذات کی جبلتیں دراصل زندگی کے عمل کو آگے بڑھانے میں مدد کرتی ہیں ۔اس لیے انہیں جبلت حیات میں مدغم کردیا گیا ہے۔
جبلت مرگ:
دوسری جبلت، جبلت مرگ (Phanaetos or Death instinct)ہے۔جس کے تحت وہ تمام رحجانات آجاتے ہیں جو عضویہ کو مادے کی غیر نامیاتی حالت کی طرف لوٹ جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔فرائیڈ اس کے متعلق کہتے ہیں:
معمولی غور فکر سے ظاہر ہو گا کہ یہ جبلت صرف انسانوں ہی میں نہیں بلکہ ہر زندہ مخلوق میں موجود ہے اور اس کا مقصد زندگی کو ختم کر کے مادے کو دوبارہ سے مردہ اور غیر نامیاتی حالت میں لے جانا ہے ۔چنانچہ اسے محض تخریب کا نام دینے کے بجائے جبلت موت کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
سادہ لفظوں میں جبلت مرگ سے مراد وہ جبلت ہے جو انسان کو موت کی طرف مائل کرتی ہے ۔اس کے مندرجہ ذیل پہلو ہو سکتے ہیں :
ہر ذی حیات میں یہ میلان پایا جاتاہے کہ وہ کچھ عرصہ زندہ رہ کر مرجائے۔
جبلِت مرگ اصول استقامت سے وابستہ ہے ۔ہر ذی حیات اپنے وجود میں توازن قائم رکھنا چاہتاہے۔
نفسیاتی نقطہ نظر سے دیکھیں تو ذی حیات تناؤ کو کم کرنا چاہتا ہے۔چاہے وہ خارجی مہیجات سے ہو یا داخلی مہیجات سے تناؤ دور کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انسان گزرے ہوئے تجربات اور بیتی ہوئی کیفیات کو دوہرائے ۔
انسان اپنی ذات پر جا رحیت روا رکھنا چاہتاہے اور پھر اس جارحیت کا رخ خارجی دنیا کی طرف موڑ دیتاہے۔زندگی کے اس تصور میں ایک بنیادی دوئی دیکھی جاسکتی ہے مثلاً زندگی کا ایک اصول عشق ہے جس کا کام چیزوں کو ملانا ،جوڑنا ہے۔جبکہ دوسرا اصول تخریب ہے جس کا کام چیزوں کو توڑنا ،جدا کرنا اور بنے بنائے سانچوں کو پارا پارا کرنا ہے۔فرائیڈ کے نزدیک جبلِت مرگ کبھی کبھی قاتلانہ اور بے رحمانہ روپ میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے یعنی خود مرنے کی خواہش دوسروں کو مارنے کی خواہش میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔چنانچہ دوسروں کو مارنے کا عمل جبل ِت مرگ ہی کا اظہار ہے۔فرائیڈ اسی مفروضے کی بنیاد پر ایک اور بات کا بھی اضافہ کیا ہے کہ اگر اس میں جنسی عنصر شامل ہو جائے تو وہ اس کی تشریح اذیت کوشی (Masochism) اور اذیت پسندی (Sadism) کی اصطلاحات کے زمرے میں کرتاہے۔

Facebook Comments

عدیل ایزد
قاری اور عام سا لکھاری...شاگردِ نفسیات

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply