خزاں ، پیار اور چنار کے گرتے پتے۔۔ضیغم قدیر

کہتے ہیں پرانے وقتوں کے لوگ مہینوں میں جیتے تھے۔ یہ دِنوں اور ہفتوں کے حساب سے جینا ہم جیسے نازک اندام جدید لوگوں نے دریافت کیا۔ دن اور ہفتے تو ہزاروں کڑوڑوں سالوں سے چلے آ رہے ہیں۔ جس دن بگ بینگ کا دھماکہ ہوا ، پہلا دن وجود میں آ گیا تھا۔ انسان، جوہڑ میں موجود ایک خامرے کی شکل میں جب موجود تھا تب بھی دن اور ہفتے وجود رکھتے تھے۔ اور تب بھی جب انسان نے اندھیروں کے خوف میں ، کڑکتے بادلوں کی چمک میں ، جب دیکھا کہ اوپر سے ایک بجلی کا شعلہ زمین پہ گرا تو آگ لگ گئی اور وہ آگ راحت دیتی تھی، وہیں سے ہم نے ، تمہارے اور میرے آباء نے، آگ جلانا سیکھا۔ تب بھی دن وجود رکھتے تھے۔

مگر تب ہم موسموں میں جیا کرتے تھے۔ شائد میرے وجود کے اندر، میرے ڈی این اے کی بیسز میں ، کہیں ایک پرانی روح کا کچھ ڈی این اے پڑا ہوا ہے، وہ ڈی این اے، جو مجھے اس جدید دور میں بھی دنوں کے حساب سے جینے کی بجائے موسموں کے حساب سے جینے پہ مجبور کئیے ہوئے ہے۔ باہر صحن میں زیادہ تر درخت جوں جوں اپنے پتے کھو رہے ہیں، توں توں میرے وجود میں ایک اُداسی سرائیت کئیے جا رہی ہے۔ یوں جیسے ایک تسبیح کے دانے ، ایک تسلسل رکھ کر، ہر اگلے دانے کو وجود بخشتے ہیں۔ ویسے ہی میرے ڈی این اے کی تسبیح کے دانوں میں، کہیں کچھ پرانی تسبیحات کے دانے ، باقی رہ گئے ہیں، وہ دانے، جو اب بھی مجھے مجبور کئیے ہوئے ہیں کہ میں لمحوں اور دنوں میں نہیں بلکہ موسموں میں جیا کروں۔ خزاں میں بس صحن میں گرے، چنار کے پتوں کو، نائٹروجن سے بھرے ، غیر استعمال شدہ ، متروک شدہ، صحن کو آلودہ کرنے والے، پتے، نا سمجھوں ۔ بلکہ ان کو جدُائی اور پیار کا ایک استعارہ سمجھوں۔

یہ اداسی کیا ہے؟ ایک کیمیائی لوچہ، اس سے بڑھ کر تو کچھ نہیں نا! مگر میں اسے وجود میں محسوس کرتا ہوں۔ اس خنک ہوا کی وجہ سے، پرے صحن میں ، جب بھی چنار کا کوئی پتا گرتا ہے،مجھے یوں لگتا ہے جیسے میرے وجود سے کچھ گرا ہے۔ اور یہ احساس مجھے اداس کر دیتا ہے۔ شائد اسی قدرت کے ساتھ ربط کی وجہ سے، اس کونیکشن کی وجہ سے، ہر سال جونہی چنار کا پہلا پتا گرتا ہے، تو میرا وجود بھی ہمت ہار بیٹھتا ہے۔ وہ بھی کہتا ہے کہ مجھے اب اداس ہونا ہے۔ مجھے اب بیمار ہونا ہے۔

بخار ، دراصل یہ ہمارے وجود کی جیت کی نشانی ہے۔ جب بھی ہمارا وجود کسی باہر سے حملہ آور، کسی ندیدے بیکٹریا یا وائرس سے جیت جاتا ہے تو درجہ حرارت بڑھا کر جشن مناتا ہے۔ اگر آپ اس درجہ حرارت کو کم کرنے کی خاطر دوا لیں گے تو یہی جیت آپ کے وجود کی ہار بن سکتی ہے۔ اسی طرح، یوں خنک خزاں میں، اس خشک ہوا کی سرسراہٹ سے، ایک تنہا پیلا پتا گرتا ہے تو یہ درخت کی ہار نہیں ہوتی ، یہ تو جیت ہے ، اُس پتے کی،ٹہنی کی ، اور درخت کی، کہ ایک پتے کے یوں گرنے سے بعد میں کئی سبز پتے لگنے ہیں۔ قدرت اپنے پیار کا اظہار یونہی کرتی ہے۔ جُدائی دے کر ، اک نئی لہر دیتی ہے ۔ اگر سدا ایک ساتھ رہیں تو رشتے کی قدر کم کم لگتی ہے ایسے میں کچھ لمحوں کو خزاں آنا بنتی ہے۔

پرانی روح ہونے کے ناطے ، مجھے ہر چیز میں ، ہر بات میں، سائنس کا اطلاق کرنا بہت عجیب لگتا ہے۔ گو سارا سال سائنس کے نظریات کی ترویج کرتے گزر جاتا ہے۔ مگر کبھی کبھی غیر منطقی ہونا بھی سوُد مند ہے۔ یوں تو پیار بھی ایک کیمیائی لوچہ ہے۔ جس میں چار کیمیائی مرکبات ایک وقت میں خارج ہو کر ، اکھٹے ریلیز ہوکر ، ہمیں پیار محسوس کراتے ہیں۔ مگر تم کبھی اس پیار کی خزاں دیکھنا، وہ خزاں، جب پیار کے چنار کا پہلا پتا، خزاں کی خنک ہوا کی سرسراہٹ سے ، نیچے گرے گا تو تمہیں ملٹی وٹامنز کی کمی چاہے نا بھی ہو پھر بھی آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے پڑ جائیں گے۔ پیار سائنس نہیں دیکھتا۔

شائد اسی لئے میں دن میں جینا پسند نہیں کرتا ۔ مہینوں میں جینا پسند کرتا ہوں۔ کیونکہ دن میں جینے پر ، کسی دن جھگڑا ہو جائے، لڑائی ہوجائے تو اگلے دن ، گزشتہ دن کا ہمارا پیار، وہ بھی انجان بن جاتا ہے۔ مگر موسم میں جینے پر ایسا نہیں ہوتا، بلکہ موسم میں اگر پیار کے درخت پہ خزاں آ جائے تو یہ ایک بہار کی نوید ہوتی ہے۔ وہ بہار ، جو پیار کو مزید گہرا کر دیتی ہے۔ پیار ہونا ہی ایسا چاہیے۔ وہ پیار، جو خزاں آنے پہ فقط چنار کے سنہری پتے صحن کے فرش پہ نا گرائے بلکہ ایک چنار کے سنہری پتے کے بدلے دو نئے پتے اُگائے۔

اکثر کبھی پرانے زمانے کے خطوط، کہانیاں، قصے ، کچھ بھی ملے، پڑھوں تو محسوس ہوتا ہے موسموں میں جینا کتنا سود مند ہوا کرتا تھا۔ تب پیار میں لڑائی اس بات پر نہیں ہوا کرتی تھی ، محبوبہ، یہ نہیں کہتی تھی، کہ، تمہارا لاسٹ سین آٹھ بجے کا تھا اور مجھے جواب دس منٹ بعد دیا، بلکہ ،تب لڑائی کچھ یوں ہوا کرتی تھی کہ؛

Advertisements
julia rana solicitors

تم کو میں نے چنار کا پہلا پتا گرنے پہ خط لکھا، اب تو چنار پھر سے سر سبز ہوگیا ہے، صحن میں ، کیاری میں لگے گلاب پر، اب تو شہد کی مکھیوں نے ڈیرہ ڈال دیا ہے۔ وہ مکھیاں ، آبِ حیات کشید کر رہی ہیں، گلاب کی ایک ایک پتی میں موجود ، فرکٹوز اور گلوکوز کا ذرہ ذرہ چوس رہی ہیں، کہ یہی ان کا آبِ حیات اور تمہارا ، مستقبل کا، جامِ شیریں ہے، وہ کشید کر رہی ہیں ، مگر ابھی تک تمہارے خط کا جواب نہیں ملا۔ وہ چوڑیاں جو تم نے بھیجی تھی ان کا رنگ اب ہلکا پڑ رہا ہے۔ ہاتھوں پہ لگی مہندی ، اب مانند پڑ رہی ہے۔ سامنے دھند سے گزرتا ہر شخص مجھے ڈاکیا لگنے لگا ہے۔ مگر تمہارا جوابی خط نہیں ملا۔ تمہارا خط ، مجھ پہ ، یہ جادوئی منتر پڑھ سکتا ہے۔ میری آنکھوں کے گرد بنتے سیاہ حلقے، یہ کسی وٹامن کی کمی کا نتیجہ نہیں، یہ تمہارے خط کے نا آنے کا نتیجہ ہے۔ اماں مجھے روز ، ہر شام کو، یہ دوا کھلا رہی ہیں کہ یہ حلقے دور ہو جائے۔ وہ چہرہ جسے تم کبھی چاند ، کبھی مہتاب ، کہا کرتے تھے اس پہ گرہن نا لگ جائے۔ مگر مجھے پتا ہے ان دوائیوں کا کوئی اثر نہیں ہونا۔ تم کہا کرتے تھے نا ! کہ پیار کیمیائی تعاملات نہیں دیکھتا،بعض جوان چہروں کے گرد پڑے، سیاہ حلقے، وٹامنز کی کمی کی نشانی نہیں ہوتے ، بلکہ پیار کی کمی کی نشانی ہوتے ہیں۔ سو اب مجھے یہ کمی ہو گئی ہے۔ اب تو موسموں سے نفرت ہونے لگ پڑی ہے۔ یہ نفرت اب تم ہی ختم کر سکتے ہو، ورنہ مجھے دنوں سے پیار ہو جائے گا۔ پھر یہ نا کہنا کہ تم بدل گئی ہو، دن سے پیار کرنے والے اکثر لمحوں میں جیتے ہیں۔ یادیں نہیں بناتے ، جبکہ مجھے تم پسند ہو، جو موسموں میں جیتے ہو، یادیں بناتے ہو، اور ان کو یاد کرکے پھر جیتے ہو۔ اب مجھے ، خزاں کی خنک ہوا سے، گرتا چنار کا ہر پتا، تمہاری یاد میں گرتا ہر آنسو ، ایک ہی دکھائی دیتا ہے۔اب کیوں نا تم میرے وجود کے اس موسم میں ایک بہار لے آؤ۔ میرے خزاں رسیدہ چنار میں ، بہار لے آؤ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply