سندھی قومی تحریک اور سرائیکی وسیب /عامر حسینی

میں “ون یونٹ اور سندھ” (مصنف: پروفیسر اعجاز قریشی)کتاب پڑھ رہا تھا تو اس دوران مجھے شدت سے اس بات کا ادراک ہوا کہ سندھ کی دانش کے مظہر لوگوں نے اپنی زبان، ثقافت، وسائل ، قومیتی شناخت بچانے کے لیے کس قدر انتھک جدوجہد کی اگرچہ وہ کراچی سمیت سندھ کے شہری مراکز کو سندھی سے شدھ ہونے کو نہ بچا پائے اور وہ اپنے اندر کے حکمران طبقات کے ایک بڑے سیکشن کی غداری اور موقع  پرستی کے سبب کوٹری بیراج، سکھر بیراج ، گدو بیراج سے قابل کاشت رقبے پر پنجابی- مہاجر و پختون اشرافیہ کی آبادکاری، سانگھڑ میں حروں سے چھینی گئی زمینوں اور اپنے ایک گاؤں کو پنجاب کا حصہ بنائے جانے سے نہ روک پائے لیکن پھر بھی انہوں نے سندھ کے اکثر مفادات کا تحفظ بڑی حد تک کرلیا ۔

لیکن اس کے برعکس سرائیکی وسیب ایک تو ابھی تک اپنی شناخت پر مبنی الگ صوبے کے قیام میں کامیابی حاصل نہیں کر پایا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ تو سرائیکی وسیب کی حکمران اشرافیہ کی بھاری اکثریت کا سرائیکی شناخت کو اپنی اجتماعی جدوجہد میں کسی قسم کی اہمیت نہ دینا ہے ۔ اس خطے کے ہر ایک ضلع کی سیاسی اشرافیہ کا کردار تو سندھ کے ایوب کھوڑو، پیر علی محمد راشدی وغیرہ سے بھی بدتر ہے اور یہ سب کے   اپنے ذاتی اور وقتی مفادات کے لیے سرائیکی وسیب کے وسائل اور شناخت دونوں کو قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں ۔

سب سے بڑا المیہ سرائیکی وسیب کا یہ ہے کہ اس خطے کی زمیندار اشرافیہ کا قومی شعور اتنا بھی بلند نہیں ہے جتنا ہم نے سندھ کی زمیندار اشرافیہ کا دیکھا ۔ اس خطے کے کسی پیر جاگیردار گھرانے میں کوئی ایک علمی و سیاسی اعتبار سے اس دانش کا مالک نہیں نکلا جیسے جی ایم سید تھے ۔

اس خطے کا کوئی بیوروکریٹ اس سیاسی شعور کا مالک نہیں بنا جو ہم نے حیدر بخش جتوئی کے ہاں پایا اور ان کے جیسا ورسٹائل مصنف اور سرگرم رہنماء تو ایک بھی نظر نہیں آیا ۔

سندھی مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے وکلاء، ڈاکٹر، انجنئیر، اساتذہ، صحافیوں اور طالب علموں نے جس جوش اور جذبے کے ساتھ سندھی قومی تحریک کا علم تھاما اور جس طرح سے انھوں نے فکری اور عملی جدوجہد کی اپنی زندگیاں اس تحریک کو سینچنے میں لگا دیں اس طرح کی اجتماعی جدوجہد ہمیں سرائیکی مڈل کلاس میں نہیں ملتی ۔

سرائیکی خطے کے کسانوں کو کامریڈ حیدر بخش جتوئی جیسا لیڈر آج تک میسر نہیں آیا اور یہی وجہ ہے کہ سرائیکی خطے کے کسانوں کے پاس ایسے لٹریچر کی شدید کمی ہے جو سرائیکی کسان مسئلہ کی مختلف جہتوں پر ان کی رہنمائی کرتا ، ان کے شعور کو بلندی پر لیکر جاتا ۔

سندھ کے اہل دانش نے بلا مبالغہ لاکھوں صفحات پر مشتمل ایک ایسا لٹریچر تیار کیا جو سندھ کے عام آدمی کو یہ سمجھانے کے قابل ہوا کہ اسلام آباد اور لاہور کیسے ان کے وسائل کو ریاستی میکنزم کے ذریعے سے پنجاب کی اشرافیہ کے ہاتھوں میں دے رہا ہے اور پنجاب کے ساتھ صوبہ سندھ کا ضم ہونا ان کی معاشی، سیاسی، سماجی ہر لحاظ سے غلامی اور بدترین استحصال کو ممکن بناتا ہے ۔

سندھ کی پنجابائزیشن سندھی عوام پر روا رکھے جانے والے ظلم و جبر و استحصال کا نام ہے اور اس سے نجات حاصل کیے بغیر سندھ قومی جبر سے نجات نہیں پا سکتا لیکن اس کے برعکس سرائیکی وسیب میں اب تک ایسے تحقیقی مطالعات کی شدید کمی ہے جو سرائیکی خطے کے عوام کو یہ باور کرائے کہ کیسے لاہور سے ان کے وسیب کی انتظام کاری ( جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ پنجابی نوکر شاہی کے غلبے اور اس کی قوت و اختیار کی گراس روٹ لیول پر منتقلی کا دوسرا نام ہے اور یہ پنجابی اشرافیہ کے قبضے کو اور مضبوط بنا رہا ہے ) اس خطے کو مزید بدتر جبر اور استحصال کی طرف دھکیلنا ہے ۔

سرائیکی وسیب کی منظم پنجابائزیشن کا پروسس پوری طاقت سے جاری و ساری ہے اور اس عمل کو آگے بڑھانے میں پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ کا سب سے بڑا کردار ہے جس نے اس خطے کے زمیندار اشرافیہ ، سرمایہ داروں اور اس کے درمیانے طبقے کے

Well-settlled sections

کی تابعداری اور ذاتی مفادات کے زیر اثر موجودہ پاور سسٹم میں مرکز ، صوبے اور ضلعی سطح پر جگہ بنانے کے لیے سرائیکی قومی تحریک سے غداری کا راستا اختیار کر رکھا ہے ۔وہ اس غداری پر پورے سرائیکی وسیب میں کہیں بھی اپنے خلاف کوئی بڑی مزاحمت نہیں دیکھتے اور نہ ہی سرائیکی وسیب کے عوام کا شعور اتنا بلند ہے کہ وہ اس غداری پر ان سیکشنز کو سزا دیں ۔

سرائیکی خطے میں جو سرائیکی تحریک کے ثقافتی میدان میں سرگرم ہیں جنھوں نے شعر و ادب ، موسیقی اور زبان کے میدانوں میں کار ہائے نمایاں سر انجام دیے ہیں وہ شاعر، ادیب، دانشور ، ماہر لسانیات ، اساتذہ سرائیکی خطے کی عوام میں اس خطے کے غدار طبقات اور مرکز و لاہور کے حکمران طبقات کے باہمی گٹھ جوڑ کو عوام کے زبردست استحصال اور جبر سے نامیاتی اور ناگزیر رشتہ دکھانے اور اس کے خلاف انھیں بغاوت کے لیے آمادہ نہیں کر پائے کیونکہ وہ اپنے گوشہ ہائے عافیت
Comfort Zones

سے باہر آنے اور عوام کی خاطر اپنا سب کچھ تج دینے کو تیار نہیں ہیں جیسے سندھ کے شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی اکثریت نے کیا تھا۔ اس کے لیے جیل جانا پڑتا ہے ۔ معاشی ابتری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔بھوک ، ننگ برداشت کرنا پڑتی ہے جو آج ان میں سے کوئی کرنے کو تیار نہیں ہے ۔

اس وقت سرائیکی وسیب کے اندر جامعات اور کالجز میں ہزاروں سرائیکی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں زیر تعلیم ہیں اور ان کی بھاری اکثریت قومی مزاحمتی شعور کی پست ترین سطح پر ہے وہاں سے کوئی احتجاجی تحریک جنم نہیں لے رہی ۔ کوئی جام ساقی، نذیر عباسی ، قادر لالہ وہاں جنم نہیں لے رہا جو کیرئرسٹ ہونے کے جنون کو تیاگنے کے لیے تیار ہو ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج سرائیکی خطے میں کارپوریٹ فارمنگ ماضی میں کینالائزیشن اور کالونائزیشن سے کہیں بڑی قبضہ گیری اور زبردست جبری بے دخلی کی پالیسی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ زرعی رقبوں اور جنگلات کو ہاؤسنگ کالونیوں میں بدلا جانا اس خطے کی مکمل تباہی و بربادی کا سامان ہے اور یہ اس تباہی سے کہیں بڑی تباہی ہے جو اس خطے پر سندھ طاس معاہدے اور ون یونٹ کے قیام سے آئی تھی ۔ اس کے خلاف بہت بڑی بیداری کی تحریک چلانے کی ضرورت ہے ۔ اس تباہی سے سرائیکی وسیب کو بچانے کے لیے سب سے بڑی ضرورت اس خطے کو لاہور سے الگ کرکے مکمل صوبہ بنایا جانا اشد ضروری ہے ۔وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور قبضہ گیری کو ختم کرنے کی طرف بڑھنے کا پہلا قدم سرائیکی صوبے کا قیام ہے۔ہمیں سندھ کی قومی تحریک کی تاریخ سے سبق سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply