• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ ایم این اے حلقہ 241 ،کراچی کے نام تحریکِ شناخت کے رضاکار اعظم معراج کا کھلا خط

ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ ایم این اے حلقہ 241 ،کراچی کے نام تحریکِ شناخت کے رضاکار اعظم معراج کا کھلا خط

ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
ایم این اے حلقہ 241
کراچی
ڈاکٹر صاحب سلام
میرا نام اعظم معراج ہے۔ ۔میں اپ کے حلقے کے لاکھوں ووٹروں میں سے ایک ہوں۔ اس سے فرق نہیں پڑتا،کہ میں آپ کو ملنے والے 52456 ووٹوں میں شامل تھا یا نہیں۔۔ لیکِن اب آپ مجھ سمیت حلقہ این اے 241کے تمام ووٹروں سمیت پورے ملک کے شہریوں کے لئے قومی اسمبلی میں ہمارے انسانی و شہری حقوق کے تحفظ کے لئے آئین سازی کروانے جیسے انتہائی اہم کام کے ذمدار ہیں۔مجھے امید ہے آپ یہ فرض بخوبی نبھائے گے ۔۔ہم کچھ عرصہ فیڈریشن کی برطانیہ پاکستان بزنس کونسل میں ساتھ بھی رہے ہیں۔اسی سلسلے میں آپ سے چند ملاقاتیں بھی ہیں ۔
اسکے علاؤہ میں دنیا بھر کی اقلیتوں کو پیغام انضمام بزریعہ شناخت برائے ترقی وبقاء دیتی فکری تحریک تحریک شناخت کا رضآ کار بھی ہوں ۔ میں اپنا اور تحریک کا تفصیلی تعارف آپکو واٹس ایپ بھی کررہاہوں اور بزریعہ ڈاک آپکے گھر پر بھی بھیج رہا ہوں ۔
گو کہ 1973کے آئین کی شق 41/2اور91/3مجھے آئینی طور پر دو نمبر شہری ہونے کا احساس دلاتی ہے ۔۔لیکن میں اور مجھ جیسے دیگر ایک کروڑ غیر مسلم دھرتی کے بچے اس ملک کے معروضی حالات ,مخصوص مذہبی, تاریخی, پس منظر اور ریاست و حکومت کی خؤد ساختہ کمزرویوں کی بدولت اس آئینی زخم کے درد کو سہتے ہوئے اس سے صرفِ نظر کرتے ہیں ۔۔ اس خط کے زریعے میں آپکی توجہ ان تقریبا ایک کروڑ دھرتی واسیوں کے ایک انتہائی اہم مسلے کی دلوانا چاہتا ہوں ۔۔اس مسئلے کے حل سے ان پاکستانیوں کے 80فیصد معاشرتی سیاسی اور سماجی مسائل کے حل کا خؤد کار نظام ترتیب پاسکتا ہے ۔۔ اس مسلئے کا پس منظر یہ ہے ک ،پاکستان کے ان دھرتی واسیوں پر پچھلے 16انتخابات میں 5 بار 3انتخابی نظام آزمائے گئے ۔لیکن یہ ہماری ہر دور کی سیاسی،حکومتی ، دانشور اشرفیہ اور اقلیتوں کے نمائندوں کی بہت بڑی ناکامی ہے ۔۔کہ اقلیتوں کی اکثریت کبھی بھی ان نظاموں سے خؤش نہیں رہی ۔ہر نظام کے چند بینفشریز کو چھوڑ کر مذہبی اقلیتیں کبھی بھی ان سے مطمئن اور خوش نہیں ہوئی ۔۔ پہلی 2 اسمبلیوں میں جداگانہ طریقہ انتخاب تھا ۔اس وقت الیکٹرول کالج محدود ہونے کے باوجود جوگںندرا ناتھ منڈل کے استعفی میں اس نظام میں تبدیلی پر سوچ بچار کا پیغام اس وقت کی ریاستی و سیاسی اشرفیہ کو دیا گیا تھا۔ شائد اسی وجہ سےاگلی 3 اسمبلیوں کے انتخابات مخلوط طریقہ انتخاب سے ہؤے ۔جس میں مذہبی اقلیتوں کی مذہبی شناخت پر نمائندگی بہت مشکل ہے ۔یہ نظام 3 بار آزمایا گیا ۔ تینوں بار میں صرف ایک ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوسکا۔جس پر مسیحیوں نے احتجاج کیا ۔شہادتیں ہوئی ،شہیدوں کے خون کے صدقے طے ہو گیا،کہ اقلیتوں کو مذہبی شناخت پر نمائندگی دی جائے گی ۔ثبوت اس کا یہ ہے ۔۔کہ اکیس نومبر 1975کو چوتھی آئینی ترمیم ہوئی۔جس میں موجودہ نظام متعارف کرایا گیا ۔1977کے الیکشن اسی نظام کے تحت ہونے ۔ مارشل لاء لگ گیا۔ مذہبی اقلیتوں نے احتجاج کیا۔ کہ ہمارے نمائندے سیاسی اشرفیہ کیوں چنے ۔؟۔ضیاء الحق نے جداگانہ طریقہ انتخاب دے دیا,جس کا اچھا پہلو یہ تھآ کہ اس میں اقلیتوں کی لیڈر شپ ابھری ہر مذہبی اقلیت کو حصہ بقدر جثہ ملا ۔لیکِن اس نظام کا دوسرا پہلو بڑا غیر جمہوری، غیر انسانی تھا ۔اس میں اقلیتوں سے جنرل نشستوں پر ووٹ ڈالنے اور الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی تھی۔ جسکے نتیجے میں ایک کروڑ دھرتی کے بچے سیاسی ناپاک شودر اور معاشرتی اچھوت بنا دیئے گئے ۔۔یہ نظام پہلی 2 اسمبلیوں اور 1985سے 1997تک 5 بار مجعوعی طور پر 7 بار آزمایا گیا ۔۔ اقلیتیں خصوصاً مسیحی احتجاج کرتے رہے ۔ جس کے نتیجے میں پرویز مشرف نے پھر وہ ہی چوتھی آئینی ترمیم والا نظام بحال کر دیا ۔ اس میں اقلیتوں کا قومی ووٹ بحال ہؤا جنرل نشستوں پر الیکشن لڑنے کا حق بحال ہوا۔ لیکن اقلیتوں کے 38نمانیدے چننے کا اخیتار چند لوگوں کے پاس چلا گیا۔موجودہ قومی اسمبلی میں صرف 3 شخصیات کی مرضی و منشاء سے ایک کروڑ اقلیتوں کی مذہبی شناخت پر 9 نمائںدے تشریف فرما ہیں،دسویں کو کوئی ایک اور شخصیت چن لے گی.. یہ انتہائی غیر جمہوری اور جمہوریت کی روح کے منافی طریقہ سلیکشن ہے۔ وہ ہی سلیکشن جس کا دھبا کسی قومی لیڈر پر لگ جائے تو وہ جمہوری کلنک بن جاتا ہے ۔ اسکے اچھے پہلوئوں کے ساتھ یہ خامی بہت ہی غیر جمہوری ،جموریت کی روح کے منافی اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے ۔۔کہ ایک کروڑ مذہبی اقلیتوں جو کہ مختلف مذاہبِ کو ماننے والے ہیں ہر مذہبی گروہ کی اپنی سماجی باریکیاں ہیں۔ یہ کوئی دوسرے مذہب کو ماننے والا کیسے سمجھ کر انکی مذہبی شناخت پر نمائندگی کا حق دار کسی بھی اپنے پارٹی ورکر کو نامزد کرسکتا ہے ۔؟
تحریک شناخت نے برصغیر کی اقلیتوں کے لئے مختلف ادوار میں وضع کئے گئے انتحاہی نظاموں کو 1909سے حالیہ انتخابات تک کے ان نظاموں کے بغور مطالعےاور انکی خوبیوں خامیوں کے جائزے سے دس سال کی مسلسل عرق ریزی وتحقیق سے اقلیتوں کی امنگوں ،پاکستان کے تاریخی معاشرتی ومذہبی پس منظر موجودہ معروضی حالات بنیادی جمہوری و انسانی حقوق کے مطابق اقلیتوں کے لئے ایک انتحاہی نظام کا مکمل لالحہ عمل دستیاب اعداد و شمار کے مطابق آئین کی روشنی میں حلقہ بندیوں کے ساتھ تیار کیا ہے،، جو انتہائی بے ضرر آئینی ترمیم سے ممکن ہے۔۔۔ جس کا نچوڑ یہ ہے کہ ،”اقلیتوں کے لئے موجودہ دوہری نمائندگی کے انتخابی نظام میں مذہبی شناخت والی نمائندگی کو بے ضرر آئینی ترمیم سے دوہرے ووٹ سے مشروط کرکے ایسا بنایا جائے ،جس سے ہر مذہبی نمائندگی والے نمائندے کو اس مذہبی کمیونٹی کے اقلیتی شہریوں کے ووٹوں سے ہی چنا جائے۔ جس کمیونٹی کی مذہبی شناخت کی نمائندگی وہ شخص جس بھی ایوان میں کرتا ہو۔۔۔ دوسرے لفظوں میں اسے یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے.. ” اقلیتوں کی موجودہ دوہری نمائندگی والے انتحاہی نظام جس میں مذہبی شناخت والی نمائندگی بزریعہ سلیکشن کی جاتی ہے۔۔ کو دوہرے ووٹ سے مشروط کیا جائے ۔”اس مطالبے کی بنیاد اس نقطے پر ہے، کہ جب ریاست و حکومت نے آئین پاکستان میں چوتھی ترمیم کے زریعے یہ فیصلہ کرہی لیا تھا۔کہ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کو قومی دھارے میں بھی شامل رکھنا ہے ۔اور پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی مذہبی شناخت کی بنیاد پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ضروری ہے۔ تو پھر تین یا چار سیاسی اشرفیہ کے لوگ ایک کروڑ لوگوں کی مذہبی شناخت پر نمائندے چننے کا حق کیسے لے سکتے ہیں؟؟ ہر مذہبی گروہ کے اندر کی مذہب سے جڑی باریکیوں کو اس مذہبی گروہ کی اجتماعی دانش ہی سمجھ سکتی ہے ۔۔اس لئے مذہبی نمائندگی کا حق اسی کمیونٹی کو ہی اجتماعی طور پر ہونا چاہیئے۔۔ جس کی شناخت پر وہ نمائندہ چنا جائے ۔یہ مکمل لالحہ عمل و تین نکاتی مطالبہ کتابی صورت میں اردو اور سندھی اور انگریزی میں بھی چھپ چکا ہے۔ جس کے بارے میں متاثرین و ذمدارین کو آگاہی تحریک شناخت کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بے لوث رضآ کار کتابوں ،کتابچوں ،قومی وکمیونٹی کے اخبارات ،رسائل ،پوسٹرز ،وڈیو کلپس ٹی وی انٹرویوز،خطوط ودیگر ذرائع سے تقریبا دہائی سے متاثریں و ذمدارین کو دے رہےہیں ۔لیکن یہ ہمارے اس جمہوری نظام کا ایک تاریک پہلو ہے، کا مقنہ کے نام پر بھی یہ فیصلہ چند شخصیات نے ہی کرنا ہے ۔۔ میں اپنے تعارف کے ساتھ اس کتابچے کی ایک کاپی بھی آپ کو بھیج رہا ہوں ۔ اس میں،میں نے آئین کی روح سے بھی اس مطالبے کے حق میں دلیلیں دی ہیں ۔ اس مسلئے کے حل کے لئے جو بھی سیاسی جماعت پہل کرے گی اسے نہ صرف قومی اور بین الاقوامی سطح پر نیک نامی ملے گی بلکہ پاکستان کے 859حلقوں میں پھیلے ہوئے اقلیتی شہریوں کے آنے والے الیکشن تک تقریبا 50لاکھ ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل ہونگی ۔ اور یہ پچاس لاکھ اقلیتی ووٹرز پنجاب اور سندھ کی 20قومی اور 50کے قریب صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر یقینی کامیابی کی بھی ضمانت ہیں ۔۔ کیونکہ یہ اقلیتی شہریوں کی دو بڑے مذہبی گروہ ہندؤ اور مسیحی ان صوبوں میں زیادہ آباد ہیں ۔ یہ ہوگی بھی بے ضرر آئینی ترمیم جو نہ کسی ریاستی ادارے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کے مفادات سے متصادم ہے ہوگی ۔۔ اس لئے آسانی سے پاس ہو جائے گی ۔۔اس مسئلے کے حل سے یقیناً پاکستان کا ایک بہت ہی روشن پہلو دنیا بھر میں جائے گا۔کیونکہ آج کے جدید دور میں ریاستوں کی ترقی ناپنے والے اشاریوں میں سے ایک اشاریہ یہ بھی کہ اس ملک وقوم کے کمزور طبقات مثلآ بچے ،عورتیں اور اقلیتں کتنی خؤش اور مطمئن ہیں ۔ سب سے بڑھ کر کے اس نقطے کو اپنے پارٹی،ملک وقوم اور میرے مفاد میں آجاگر کرکے اپنے ایک ووٹر کا نمائندہ ہونے کا فرض بھی پورا کریں گے ۔یہ یاد رہے کہ اقلیتوں کے اس مطالبے کو اپنی اعلیٰ قیادت اور اسمبلی میں پیش کرکے آپ اپنی سیاسی جماعت کا بہت بڑا فائدہ آنے والے انتخابات میں کریں گے۔۔ اور یہ وہ فائدہ ہے ۔جسکے بارے میں آپ کو یا آپکی اعلیٰ قیادت کو آپکا کوئی اقلیتی ساتھی جو چاہے ایوانوں میں آپ کے ساتھ بیٹھا ہو ،
کبھی نہیں بتائے گا ۔۔
واسلام
آپکی رائے اور جواب کا منتظر
اعظم معراج
رضا کار تحریک شناخت
بانی پمسا (پاکستان انسٹیٹیوٹ آف مینارٹییز سوائٹ انلسز )
بانی مریری (معراج معراج رئیل اسٹیٹ ایجوکیشن اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ
تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply