آستین کے سانپ بھی ہوتے ہیں / گل بخشالوی

وزیر آباد میں تحریک ِ انصاف کے حقیقی آ زادی مارچ میں عمران خان کنٹینر پر اپنے دوسرے رہنماؤں کے ساتھ عوامی استقبال اور   پُر جوش نعروں کا ہاتھ ہلا ہلا کر مسکر اتے ہوئے جواب دے رہے تھے ، کہ ایک دم گولیاں چلنے کی آواز آئی۔ بھگدڑ مچ گئی اور چیخوں کی آواز وں میں سنا گیا کہ قائد ِتحریک عمران خان کو گولی لگ گئی ہے۔

جلوس کے شرکاءجو چند لمحے قبل بکھر گئے تھے واپس آئے اور حکومتِ  وقت کے خلاف نعرے لگانے لگے ، اور کچھ نے ماتم شروع کر دیا ، عمران خان کو جب سہارا دے کر نیچے لایا گیا تو ان کے کپڑے خون آلود تھے ،بتایا گیا کہ عمران خان کی ٹانگوں میں گولی لگی ہے ، عمران خان کنٹینر کے دروازے پر دیکھے گئے وہ اپنی  دونوں ٹانگوں پر کھڑے تھے ،سکیورٹی اہلکاروں نے انہیں روکا ، کہا کہ آپ کی زندگی کو خطرہ ہے لیکن وہ دروازے میں کھڑے ہوگئے اور انھوں نے ہاتھ ہلا  کر مسکراتے ہوئے قوم کو بتایا کہ میں زندہ اور تابندہ ہوں اور پھر وہ گاڑی میں بیٹھ کر ہسپتال روانہ ہوئے۔

کمال کا حوصلہ دیکھ کر قوم کو یقین ہو گیا کہ جو عمران خان نے قوم سے   کہا تھا سچ کر دکھایا ،کہ وہ موت سے نہیں ڈرتے اور یہ ہی صاحب ِ ایمان کی زندگی کا حُسن ہے ، شاعر کا کلام عمران خان پر صادق آتا ہے۔۔

میں انقلاب پسندوں کی اک قبیل سے ہوں
جو حق پہ ڈٹ گیا اس لشکر ِ قلیل سے ہوں
میں یوں ہی دست وگریباں نہیں زمانے سے
میں جس جگہ پہ کھڑا ہوں کسی دلیل سے ہوں

اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کرائے کا قاتل کس کا ہے ، عوام کی زبان پر حکومتِ  وقت کے خلاف قاتل قاتل کی آواز گونج رہی ہے ، لیکن ہم پاکستانی بخوبی جانتے ہیں کہ مسلم لیگ ن جب ایسی گھناؤنی واردات کے لئے نکلتی ہے تو ان کے چہرے پر نقاب ، ہاتھوں پر دستانے ، پاؤں میں  بوٹ اور کرائے کے قاتل کے منہ میں ان کی زبان ہوتی ہے ، وہ واردات کرتے ہیں لیکن نشان نہیں چھوڑتے ،
عمران خان پر حملہ آور کو ایک کارکن نے کمال جرات سے قابو کیا ، اگر وہ حملہ آور کا ہاتھ نہ پکڑتا تو ممکن ہے عمران خان کو گولی اس کی ٹانگ پر نہ لگتی ، اس لئے مسلم لیگ ن کے کرائے کے قاتل سر کا نشانہ لیتے ہیں ، میں اس کا زندہ گواہ ہوں ، لاہور میں بے نظر بھٹو کے ا ستقبال کے موقع پر انار کلی با زارمیں میرے سر کا بھی نشانہ لیا گیا تھا ، لیکن گولی سر کے غلاف کو چِیرتی ہوئی گذر گئی تھی اور میں لہولہان گھر آیا تھا  ۔

عمران خان پر حملہ وزیر آباد میں ہوا ، حملہ آور کو گجرات پولیس نے گرفتار کیا ، اور چند لمحوں بعد حملہ آور کا بیان نشر کیا گیا ، کہ میں صرف عمران خان کو مارنا چاہتا تھا ، اس کی دوسری باتیں سچ ہیں یا جھوٹ لیکن یہ ایک بات بالکل سچ ہے کہ وہ صرف عمران خان کو مارنا چا ہتا تھا، اس لئے کہ پاکستان میں واحد ایک عمران خان ہیں جو پی ڈی ایم اور اداروں کا دشمن ہے ، واحد عمران خان ہیں جس نے امریکہ سے کہا ،، ایبسلوٹلی ناٹ ،   کسی اور میں ایسی جرات نہیں ۔ ماضی میں جس نے بھی ایسی جرات کا مظاہرہ کیا ، وہ یہود و ہنود کے قومی غلاموں کے ہاتھوں شہید ہوگیا ، لیاقت علی خان ، ذوالفقار علی بھٹو ، بے نظیر بھٹو ، زندہ مثالیں ہیں۔

عمران خان بے نظیر بھٹو کی طرح پہلے حملے میں بچ گئے ہیں لیکن وہ جان لیں کہ یہ ان پر پہلا اور آخری حملہ نہیں ، وہ یہ بھی جان لیں کہ تحریک انصاف کی دوسری قیادت میں ایسا کوئی بھی نہیں جو جان ہتھیلی پر رکھ کر ریاست مدینہ کے خوا ب کی تعبیر کے لئے مغربی غلاموں کے سامنے ڈٹ جا ئے اس لئے بھی کہ تحریک ِ انصاف میں چند ہی ایسے لوگ ہیں جو عمران خان اور پاکستان سے مخلص ہیں ۔
تحریک انصاف کا حکومت ِ وقت کے خلاف ماتم اپنی جگہ لیکن دال میں کچھ کالا  بھی لگتا ہے ، آستین کے سانپ بھی ہوتے ہیں، اور اس شبہ کو تقویت اس لیے بھی ملتی ہے کہ حملہ آور اگر مسلم لیگ ن کا ہوتا تو اس کا نشانہ کبھی خالی نہ جاتا ، لازم ہے کہ تحریک انصاف میں بھی کوئی آصف علی زرداری ہے لیکن وہ ابھی ناتجربہ کار ہے۔
اقبا ل کوثر کا شعر ہے
چلائی چوک میں گولی یہ فن اسی کا تھا ،
حریف مر نہ سکا راہ گیر مار دیا!

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ؛تحریر میں بیان کردہ خیالات مصںف کے ذاتی ہیں ،مندرجات سے ادارے کا اتفاق ضروری نہیں 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply