کیڑے مکوڑے/آصف جمیل

جلسے، جلوس، دھرنا  اور ہڑتال کروانے والے سیاست دان یا مسلح جدوجہد چلانے والے عناصر ان میں ایک چیز مشترکہ دیکھی جاتی ہے ۔
ہمیشہ انکی جدوجہد میں ان کی آل عیال سرمایہ محفوظ مقام پر پایا جاتا ہے اگر کبھی ساتھ لانے کی نوبت آ بھی جائے تو محفوظ بکتر بند کنٹینر اور محافظوں   کے جھرمٹ میں موسمی حالات کے مطابق انتظامات کے ساتھ ان کا خیال رکھا  جاتا ہے   کہ بچے سرد گرم کا شکار نہ ہو جائیں ۔ (جس کا مظاہرہ کینیڈا سے درآمد انقلاب کی صورت دیکھ چکے ہیں)

اس ساری جدوجہد میں ہمیشہ موسمی حالات سے لیکر مخالفین کی لاٹھی ، گولی، نفرت، معاشی بحران سے لیکر بچوں کی زندگی تک کو خطرے میں ڈالنے کے لئے عام کارکن سڑکوں، چوراہوں، جنگلوں، بیابانوں اور عقوبت خانوں میں خون بہاتا نظر آتا ہے ۔

لیڈر کے ساتھ درجہ دوم کی لیڈر شپ بھی اسی نظریہ کے تحت اپنی جان تک محفوظ رکھتی نظر آتی ہے، ان کے بھی آل عیال اور مال محفوظ ہوتے ہیں ۔

یہ تو عام کارکن کو گھر سے نکلنے سے پہلے سوچنا چاہیے کیا وہ جن کے لیے اپنے گھر بار، کاروبار اور اپنی زندگی داؤ پر لگا رہا ہے اتنا ہی اپنے نظریے، مقاصد میں سچا ہے کہ جھوٹے سچے نعروں میں اس کی قربانی کس حد تک ہے ۔؟

کیڑے مکوڑوں  کی طرح سمجھے جانے والے کارکنوں کو اس بات کا شعور ہونا چاہیے ،اقتدار ہمیشہ لاشوں، کھوپڑیوں اور بہتے خون سے حاصل ہوتا ہے ۔

کیا   لاش، بے بسی سے کھلی کھوپڑی کی آنکھوں سے چھلکتے خوف، دکھ کے عکس، زمین پر بہتے لہو اور بڑے بڑے خون کے لوتھڑوں میں صرف وہی عام کارکن ہی نظر آتے ہیں ۔یا لیڈران کے آل عیال کا خون بھی اس انقلاب میں شامل ہے ۔؟

Advertisements
julia rana solicitors london

اس بات کا جواب آپ کو آئینے کے سامنے کھڑے  ہونے سے مل جائے گا ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply