جانوروں کی آغوش عافیت میں پلنے والے جنگلی(feral)بچے۔۔گوہر تاج

ہم میں سے کون ایسا ہوگا جو مشہور زمانہ کردار ٹارزن سے واقف نہ ہو؟ قدیم روم کے دیو مالائی  کرداررومیلس اور ریمس  ہو، یا جنگل بُک کی موگلی ان سب متحیر کُن کہانیوں کا مشترکہ موضوع یہ ہے کہ ان انسانی کرداروں کو جنگل کے جانوروں نے والدین بن کر پروان چڑھایا۔ ان حیرت انگیزکرداروں کی حرکات وسکنات میں ایک طرح کا رومانس ہے۔لطف و دلچسپی کا پہلو ہے۔لیکن ان تخیلاتی رومانی داستانوں کےبرعکس بدقسمتی سے ہماری دنیا میں ایسے بچوں کا بھی وجود ہے جنہیں والدین کی بےتوجہی، گھریلوتشدد، عدم محبت ، والدین یا بچوں کی ذہنی معذوری یا حالات کی بے مہری کی وجہ سے انسانوں کی دنیاسے بہت دور جنگلی جانوروں نے اپنی قربت میں پناہ دی۔

جنگلی جانوروں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ان بچوں کو مخصوص جانوروں کی حرکات و سکنات مثلاً چاروں ہاتھ پیروں پہ چلنے ، آوازیں نکالنے کی صلاحیت ، اپنی خوراک کا انتظام کرنے کی استعداد اور اپنی حفاظت کے لیے دشمن سے بچا ؤکی اہلیت تو پیدا ہوتی ہے مگر ساتھ ہی انسانوں سے رابطہ منقطع ہونے کےسبب سماجی ربط اور ذہنی نشوونما نمایاں طور پہ اثر انداز ہوتی ہے۔ جس میں سب سے اہم دوسرےانسانوں سے رابطے کی صلاحیت اور ایک دوسرے کے مابین یگانگت اور محبت کے  رشتہ کا فقدان ہے۔

peter the wild boy

جانوروں کی صحبت میں پلے بچوں کے رویے ان نفسیات دانوں اور تحقیق دانوں کی توجہ کا مرکز ہیں جواردگرد کے ماحول اور انسانی ذہن کی نشوونما، منطق ، ذہنی استطاعت اور زبان سیکھنے کی صلاحیت کےمابین تعلق پہ تحقیق کرتے ہیں۔ ابھی تک سو ایسے بچوں کے کیسز رپورٹ ہوۓ ہیں۔

ایسے بچوں کو عموماً انکے پالنے والے جانوروں کی نسبت سے نام دیے گئے، مثلاً برڈ بواۓ، منکی بواۓ، وولفگرل ، ڈوگ گرل وغیرہ

ذیل میں ایسے ہی چند بچوں کی کہانیاں ہیں۔جو پرانے وقتوں ہی میں نہیں بلکہ جدید دور میں بھی جانوروں کے گوشہ عافیت میں رہے۔

1- پیٹر دی وائلڈ بواۓ -پیٹر ۱۷۲۴ء میں گیارہ سال کی عمر میں شمالی جرمنی کے شہر ہینور کے قصبہ ہملین کے ایک جنگل میں ننگا پایا گیا۔وہ بولنے سے قاصر اور چاروں ہاتھوں پیروں  پہ چلتا تھا۔ کہا یہ جاتا تھا کہ اسکی نگہداشت بھیڑیوں یا بھالو نے کی تھی ۔ اس بے نام بچے کا نام ڈاکٹر جان آر بیتھنوٹ نے پیٹر رکھا۔اس کی موجودگی نے لندن میں سنسنی پھیلا دی تھی۔بعد ازاں دلچسپی اور توجہ کا مرکز بنا کر اسے جارج کنگ اوّل اور دوم کے دربار میں رکھا گیا۔ جارج اوّل نے اس بچے کو اپنی بہو کیرولن کو تحفتاً دے دیا کیونکہ اسے سائنس اور فلسفہ کے علم سے دلچسپی تھی۔پیٹر کبھی اپنے نام سے زیادہ کوئی  لفظ نہ ادا کر سکا۔اسکے گلے میں پٹا ہوتا تھا۔اسکی دو انگلیاں جڑی ہوئی  تھیں۔ وہ محل میں بھی چاروں ہاتھ پیر پہ چلتا اورشائقین کے لیے

victor of averyon

پالتو جانور جیسی تفریح کا سامان مہیا کرتا۔اس نے 70سال سے زیادہ عمر پائی  اور پینتیس پونڈ وظیفہ کی رقم وصول کرتا تھا۔ اسکی موت کے دوسو سال بعد ہونے والی تحقیق کے مطابق اسکو ایک جینیاتی بیماری پٹ ہاپکن سنڈروم تھی۔ غالباً اسی وجہ سے اسکے والدین نے اسے جنگل میں جنگلی جانوروں کے ہاتھوں مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ پیٹر کی محل کنگسٹن کی سیڑھیوں پہ بیٹھی شہرہ آفاق مسکراتی ہوئی  تصویر جو۱۷۲۰ء میں بنائی  گئی، آج بھی دیکھی جاسکتی ہے۔

2۔ وکٹر آف ایوریان : فرانس کے اس بچے کا کیس سب سے زیادہ مشہورہے ۔ بازیابی کے بعد یہ نو سالہ بچہ انسانوں سے خوف کے باعث کم ازکم آٹھ بار بھاگ گیا۔ فرانس کے ڈاکٹر جین مارس اتارد نے  وکٹر پہ کیجانے والی تحقیق  میں   اس بات کو جاننے کی کوشش کی کہ آیا زندگی کے ابتدائی  سالوں میں دوسرے انسانوں سے ربط نہ ہونے کے بعد کوئی انسان سیکھ سکتا ہے یا نہیں ۔ گو وکٹر نے شروع میں کچھ سیکھا بھی مگرباوجود کوشش کے  وکٹر سماجی ربط اور زبان سیکھنے کی صلاحیت سے محروم رہا۔

3۔ جون سیسیبونیا( بندر بچہ) : جون ۱۹۸۰ء کی دھائ میں یوگینڈا کے پسماندہ گاؤں میں پیدا ہوا۔اسکے گھرکے تفصیلی حالات تو نامعلوم ہیں مگر ایک کہانی کے مطابق اسکا باپ بہت غصیلا اور پُر تشدد تھا۔ جس نےملک میں ہونے والی خانہ جنگی میں ایک باغی کے طور پہ حصہ لیا۔

اورپھر ایک دن اس نے اپنی بیوی کوبھیجون کے سامنے قتل کردیا۔خانہ جنگی میں جون کا باپ مارا گیا۔جسکے بعد تین سالہ جون خوف کی حالت میں جنگل کی طرف بھاگ گیا۔جہاں افریقہ کے بندروں نے اسکو اپنی عافیت میں لے لیا۔جون کی بازیابی۱۹۹۱ء میں ہوئی  ۔ اس وقت وہ بندروں کے ساتھ تھا جہاں اس نے درختوں پہ چڑھنا اور انکا کھانا مثلاًشکرقندی ،کساوا اور مختلف قسم کے بیچ کھانا سیکھا ۔ جب اسکو پکڑنے کی کوشش کی گئی تو بندروں کےگروہ نے اسکی حفاظت کے لیے انسانوں پہ پتھر اور لکڑیاں پھینکیں ۔ لیکن بلآخیر وہ پکڑا گیا۔ بازیابی کےوقت وہ غذا کی کمی کا شدید شکار تھا۔ اسکا معدہ انسانی غذا کا متحمل نہ ہونے کی وجہ سے وہ شروع میں دست کی بیماری کا شکار رہا۔ جان سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز تھا۔ اسکو ایک عیسائی   یتیم خانے میں داخل کرا دیا گیا۔ جہاں اس نے انسانوں کی طرح چلنا، بولنا اور سادہ انسانی عادات مثلاً پلیٹ میں کھاناکھانا سیکھ لیا۔تاہم اس میں گانے کا قدرتی ہنر حیران کُن تھا اور وہ چرچ کے گانے گاتا۔اسکے علاوہ اسکی اتھلیٹک صلاحیت کی وجہ سے اسے ۲۰۰۳ء کے اسپیشل اولمپکس میں سوکر ٹیم کا کیپٹن بنایا گیا۔اس نےاولمپک میں دو میڈلز اور رقم جیتی۔مختلف ملکوں کے  دوروں سے واپسی کے بعد جون افریقہ میں اپنے انعامات کی رقم سے خریدے ایک گھر میں رہتا ہے۔

oxsana malaya

4۔اوکسانا ملایا: یوکرین کی آٹھ سالہ اوکسونا ملایا ۱۹۹۳ء میں کتوں کے گھر میں پائی  گئی۔جہاں وہ تقریباًچھ سال سے رہ رہی تھی۔اسکے والدین جن کے اور بھی کئی بچے تھے ۔شراب نوشی کا بری طرح شکار تھے ۔ایکدن نشے کے حالت میں انہوں نے اسے باہر سردی میں چھوڑ دیا۔ سردی سے بچاؤ اور گرمی کی تلاش میں سرگرداں اس بچی کو کتوں کے گھر میں نا صرف پناہ بلکہ قبولیت بھی ملی۔سالوں کتوں کے ساتھ رہنے سےاسکو انکی طرح زبان نکالنا، بھونکنا، دوڑنا اور کھانا پینا آگیا۔اس تمام عرصے میں انسانوں سے مکمل لاتعلقی کے باعث اوکسانہ میں باہمی ربط کی صلاحیت کا فقدان تھا۔ لیکن جب وہ انسانوں سے ربط میں آ ئی  تو ماہرین کی ٹیم کی مدد سے اس کی ذہنی نشوونما میں فرق پڑا۔ اب وہ پانچ یاچھ سال کی عمر کی ذہنی استعداد رکھتی ہے۔اسکی شدید خواہش تھی کہ وہ اپنے والدین سے ملاقات کرے اور ایک دن وہ اپنے باپ سےملی بھی۔ آج وہ ۳۴ سال کی عمر میں ذہنی پسماندگان کے ادارے میں رہتی ہے۔

genie villey

5۔جینی وائیلی: ۱۹۵۷ء میں لاؤس انجلس، امریکہ میں پیدا ہونے والی جینی کی کہانی بہت دردناک ہے ۔اسکے ذہنی طور پہ بیمار باپ کلارک نے جو بچوں سے نفرت کرتا تھا اپنی بیٹی کو ذہنی طور پہ معذورسمجھتے ہوۓ تیرہ سال ایک کمرے میں بند رکھا وہ اسے پورے دن ایک کرسی نما potty پہ باندھ کے رکھتا ۔جینی صرف رات کو ہی بستر پہ لٹائی جاتی۔

اسکے بھائی  اور ماں کو اس سے بات کرنے کی اجازت نہ تھی۔جب جینی کو ۱۹۷۰ء میں ایک سوشل ورکر نے بازیاب کیا تو سارے سماج سے کٹی ہوئی  یہ تیرہ سالہ بچی ساری دنیا کے لیے دلچسپی اور تحقیق کا موضوع بن گئی۔اسکے اوپر کام کرنے والی ماہر لسانیات سوزنکرٹس کے مطابق جینی ہر چیز میں دلچسپی لیتی۔ اس نے بہت سے الفاظ بھی سیکھے لیکن سوزن کے مطابق“زبان سیکھنے کا مطلب صرف الفاظ نہیں بلکہ الفاظ کو جملوں کی ساخت میں ڈھالنا ہوتاہے۔” جینی ایساکرنے سے قاصر تھی۔وقت کے ساتھ اسکی ذہنی حالت ابتر ہوتی گئی۔آج پینسٹھ سال کی عمر میں جینی ایک ذہنی پسماندگان کے ادارہ میں زندگی بسر کر رہی ہے۔

فطرت بمقابلہ پرورش:

ان تلخ واقعات نے جو اہم تحقیقی سوال اٹھایا وہ یہ ہے کہ ہماری شخصیت کی تشکیل میں موروثیت کا دخل ہے یاتجربات اور ماحول کا؟

ہم جانتے ہیں کہ جو دو اہم خصوصیات انسانوں کو جانوروں سے واضح طور پہ جدا کرتی ہیں وہ دوسرےانسانوں کے جذبات اور دکھ درد کو سمجھنے کی صلاحیت اور زبان سیکھنے کی اہلیت ہے۔ابتدائی  چند سالوںمیں  اگربچے ماحول میں حالات کی سنگینی، مثلاً ذہنی معذوری، کھریلو تشدد ، والدین کی شراب نوشی، منشیات کی لت اور ذہنی مرض میں مبتلا والدین کی بےتوجہی اور جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار ہو جائیں توانکے اثرات دیرپا ہوتے ہیں۔ لیکن ان سب حالات کی وجہ سے اگر بچوں کا ربط انسانی سماج سے ان ابتدائی  سالوں میں مکمل طور پہ ٹوٹ کے اپنے جانور والدین سے جڑ جاۓ تو ہم ایسے ہی جنگلی بچے دیکھتے ہیں۔ایک خاص عمر کے بعد ایسے بچے زبان سیکھنے کی اہلیت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجاتے ہیں۔ انسانی دماغ ایک انتہائی  منظم نظام کے تحت چلتا ہے۔ جس کے خلیے تجربات کو یاد رکھنے اور مسلسل سیکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔اگر دماغ کا استعمال خاص کر ابتدائی  سالوں میں محدود ہو تو دماغ کا حصہ کورٹیکس چھوٹا ہوجاتا ہے۔ جو ہمیں عقل و فراست اور انسانیت کے اعلیٰ  درجہ پہ فائز کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس مضمون کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم بحیثیت انسان اپنے آپ سے سوال کریں کہ ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوۓ ظلم و تشدد کے واقعات ، خود اپنے آپ سے ناآشنائی  ، نئی نسل سے ہماری بے توجہی، ایکدوسرےکے دکھ درد کو نہ محسوس کرنے اور بیگانگی کا جنگل اگانے میں ہمارا کیا کردار ہے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply