• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کامریڈ حسن ناصر:دوران حراست شہید ہونیوالے کمیونسٹ/3،آخری قسط

کامریڈ حسن ناصر:دوران حراست شہید ہونیوالے کمیونسٹ/3،آخری قسط

ناصر نے دوران تفتیش ساتھیوں کے نام بتائے تھے؟
اسٹنٹ ڈپٹی انسپیکٹر جنرل پولیس سی آئی ڈی نے اپنے حلفیہ بیان میں بتایا کہ حسن ناصر کو ایڈمنسٹریٹر کے احکامات کے تحت قانون تحفظ پاکستان کے تحت گرفتار کیا گیا اور انھیں 13 ستمبر 1960 کو لاہور قلعے میں لایا گیا تاکہ اس سے سی آئی ڈی اور ڈپٹی ڈائریکٹر انٹلی جنس بیورو لاہور کے افسران تحقیقات کرسکیں۔
بیان کے مطابق ناصر سے پوچھ گچھ 24 اکتوبر کو مکمل ہوگئی اور 29 اکتوبر کو ایس پی سی آئی ڈی کراچی کو آگاہ کر دیا گیا تھا کہ ملزم کی ضرورت نہیں رہی اس لیے واپس منگوایا جائے اور 4 نومبر کو اس پیغام کی یاد دہانی کرائی گئی۔
بقول ان کے حسن ناصر غمگین اور اداس رہنے لگے تھے۔ انھوں نے پوچھ گچھ کے دوران اپنے بہت سے دوستوں اور ساتھیوں کے بارے میں اطلاع دے دی تھی جو ان کے ساتھ روپوشی میں مل کر کام کر رہے تھے۔ ان کو ڈر پیدا ہوگیا تھا کہ اب وہ پکڑے جائیں گے اور ممکن ہے کہ یہی وجہ تھی کہ وہ پشیمان بھی تھے۔
ڈپٹی سینٹرل انٹلیجنس افسر اعجاز حسین نے اپنے حلفہ نامے میں بتایا کہ حسن ناصر کراچی کی کمیونسٹ پارٹی کے صوبائی سیکریٹری تھے۔ اس سے وہ تقریبا ایک ماہ تک تفتیش کرتے رہے اور وہ نہایت حساس اور قابل جوان تھے۔ انھوں نے اس وعدے پر کہ ہم اس کے شرکا کو گرفتار نہیں کریں گے، اپنے تمام ساتھیوں کے پتے اور کارروائیاں بتا دیں۔ ان کے بقول حسن ایک بار بیان دیتے دیتے سخت نادم ہوئے کہ انھوں نے پارٹی سے غداری کی ہے۔

ماموں نے لاش لینے سے انکار کردیا
اسسٹنٹ ڈپٹی انسپیکٹر جنرل پولیس سی آئی ڈی نے اپنے حلفیہ بیان میں بتایا کہ حسن ناصر کی موت کے بارے میں ان کے ماموں مہدی حسن ساکن کراچی کو مطلع کیا گیا تھا۔ انہوں نے لاش حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا بلکہ خواہش کی کہ اسے لاہور میں شیعہ رسومات کے مطابق دفنایا جائے۔ ان کی خواہش کا احترام کیا گیا۔
حسن ناصر کے ماموں ڈاکٹر مہدی حسن کا اجازت نامہ بھی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جس میں انہوں نے اور ان کی بیوی نے تحریری طور پر پولیس کو تدفین کی اجازت دے دی تھی۔
*پھندے کا نشان نرخرے کی ہڈی کے نیچے*
اسسٹنٹ ڈپٹی انسپیکٹر جنرل پولیس سی آئی ڈی نے اپنے حلفیہ بیان میں بتایا کہ 13 نومبر کو تقریبا 12 بجکر 40 منٹ پر پیغام ملا کہ حسن ناصر نے صبح گیارہ بجے خودکشی کرلی ہے لاش ڈاکٹروں کے حوالے کی گئی۔
انہوں نےڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مئجسٹریٹ کے ساتھ رابطہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن دونوں دستیاب نہیں تھے چنانچہ اس کے بعد سٹی مئسجٹریٹ ایم این رضوی سے رابطہ کیا گیا کہ وہ موت کی تحقیقات کرے اس وقت وہ تحقیقات کر رہے ہیں۔
میجر اسحاق لکھتے ہیں کہ لاش کے معائنے کی سٹی مئجسٹریٹ کی رپورٹ کا یہ فقرہ کہ لاش کے گلے میں پھندے کا نشان نرخرے کی ہڈی کے نیچے تھا جو لٹک کرپھانسی لینے کی تردید کر رہا تھا اور گلا گھونٹ جانے کی تائید کر رہا تھا۔
اس کے علاوہ انہوں نے میانی صاحب قبرستان میں جاکر خفیہ طور پر دریافت کیا تھا کہ آیا واقعی حسن ناصر کو وہاں دفن کیا گیاہے لیکن وہاں کے گورکنوں کو ایسی کسی لاش کی خبر نہیں تھی جسے پولیس کی نگرانی میں دفنایا گیا تھا۔
قبرستان کے گیٹ پر ایک رجسٹر رکھا رہتا ہے میں نے اس کے انچارج کلرک کو پکڑا جو لاہور کارپوریشن کا ملازم تھا اور کوائف کی رجسٹریشن اس کا کام تھا لیکن وسط اکتوبر سے لیکر 26 نومبر تک مجھے حسن ناصر نام کا اندراج نہ ملا نہ ہی اس سے ملتے جلتے عمر، ولدیت، حلیئے وغیرہ کا کوئی اندراج تھا۔ میانی صاحب قبرستان میں عموما سنی عقیدے کے لوگوں کی میتیں دفنائی جاتی ہیں اور شیعہ مسلک کے لوگوں کے اپنے قبرستان ہیں۔

حسن ناصر کی گرفتاری میں کوئی ساتھی ملوث تھا؟
حسن ناصر کی پارٹی کے کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی گرفتاری مخبری سے ہوئی، تنویر شیخ لکھتے ہیں کہ کچھ غداروں کی وجہ سے حسن 1960 میں گرفتار کرلیے گئے۔
لندن میں مقیم بئریسٹر صبغت اللہ قادری اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب “بکھری یادیں اور باتیں” میں طالب علمی کے زمانے میں اپنی گرفتاری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انہیں جیل سے سی آئی اے سینٹر لے جاتے تھے وہاں تفتیش کی جاتی تھی، حسن ناصر کے بارے میں معلوم کیا جاتا تھا کہ وہ کہاں ہے۔ یہ بھی سوال ہوتے کہ کون لوگ اس جماعت سے وابستہ ہیں؟ پیغام کہاں سے ملتا ہے؟ فنڈنگ کیسے ہوتی ہے، حسن ناصر کہاں ہے؟
صبغت اللہ قادری کے مطابق وہ سمجھتے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی کے کچھ لوگ حکومت کے ایجنٹ بن گئے تھے۔ حسن ناصر کو کراچی کے علاقے پی ای سی ایچ ایس میں ایک کامریڈ کے گھر سے آتے ہوئے گرفتار کیا گیا اور پھر انہیں لاہور قلعے منتقل کردیا گیا۔
میجر اسحاق اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ حسن ناصر کی گرفتاری سے پہلے نیشنل عوامی پارٹی اور اس سے متعلق تنظیموں کے کچھ کارکن گرفتار کر لئے گئے تھے۔ اس وقت یہ افواہ گرم تھی کہ ان نظر بندوں میں سے ہی کسی نےسی آئی ڈی کے تشدد کے خوف یا تشدد کے نتیجے میں حسن ناصر کا اتا پتا بتا دیا تھا جس کے نتیجے میں اس کی گرفتاری عمل میں آئی تھی۔
ان میں سے بعض نے اپنی اور دوسروں کی سیاسی کارروایوں کی تمام تر ذمہ داری حسن ناصر کے کندھوں پر ڈال دی تھی جس کی وجہ سے خفیہ پولیس کی نظر میں وہ اتنا بڑا انفلابی بن گیا تھا کہ اسے لاہور قلعے میں نظر بندی اور تشدد کا شرف بخشا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک چھوٹے قد کی لاش کو حسن قرار دیا گیا
میجر اسحاق محمد کی درخواست پر ہائی کورٹ نے بالاخر قبرکشائی اور دوبارہ پوسٹ مارٹم کا حکم دے دیا، عدالت کو حیدرآباد دکن سے حسن ناصر کی والدہ زہرہ علمبردار حسین کی طرف سے تارموصول ہوا کہ وہ اپنے بیٹے کی لاش لینے کے لئے لاہور آرہی ہیں اس لیے لاش کو ان کی موجودگی میں قبر سے نکالا جائے۔
12 دسمبر 1960 کو میانی صاحب قبرستان میں قبرکشائی کی گئی اور حسن ناصر کی والدہ زہرہ علمبردار نے واضح کردیا کہ یہ ان کے بیٹے کی لاش نہیں۔ ’ہفت روزہ نیا آدم‘ کی خصوصی اشاعت کے لیے 1973 میں دیئے گئے ایک انٹرویو میں حسن ناصر کی والدہ زہرہ علمبردار نے کہا تھا کہ حسن قدرآور لمبا تڑنگا۔ پاکستان والوں نے انہیں ایک چھوٹے قد کی لاش دکھا کر یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ یہ ناصر کی لاش ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں ڈرایا دھمکایا گیا۔ قبرستان میں ڈھاٹے باندھے ہوئے گورکنوں کو وہ اب تک بھول نہیں پائی ہیں لیکن وہ ڈری نہیں۔ انہوں نے لاش کے پاؤں کھول کر دیکھے، ناصر کو بچپن میں ایک چوٹ آئی تھی اور اس کا نشان اس کے پاؤں پر رہ گیا تھا انہیں جو لاش دکھائی گئی اس پر وہ نشان نہیں ملا۔
میجر اسحاق نے 22 نومبر 1960 کو حسن ناصر کی حبس بے جا کی درخواست دائر کی، اس روز حکومت نے دعویٰ کیا کہ 13 نومبر کو حسن نے خودکشی کرلی ہے اور 20 دسمبر کو لاش جب برآمد ہوئی تو والدہ نے اس کو قبول نہیں کیا۔
میجر اسحاق محمد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ میری دلچسپی اب مقدمے میں سرسری تھی اور سارا معاملہ خوفناک اسکینڈل بن گیا تھا اگر اس قوم میں کہیں بھی انصاف کی رمق باقی تھی تو اس معاملے میں تحقیق کرنے کے لیے مئجسٹریٹ کی جگہ اعلیٰ اختیارات کا ٹربیونل بیٹھنا چاہئیے تھا۔ سی آئی ڈی اسٹاف کو معطل کرناچاہیے تھا۔
حسن ناصر کی پراسرار ہلاکت کو 60 سال کا عرصہ گذر چکا ہے، لوگوں کی گمشدگی عقوبت خانوں میں تشدد اور لاشوں کی گمشدگی کی شکایت آج بھی آتی ہیں۔ چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس میں اس وقت بھی کئی لاپتہ افراد کی درخواستیں زیر سماعت ہیں کہ ان کے رشتے دار لاپتہ ہیں۔

Facebook Comments