منی دئیا لالہ۔۔ناصر خان ناصر

ایک لوک گیت پنجاب میں ہماری دادی کے وقتوں سے گایا جا رہا ہے۔ اس کے بول دور دور تک ہندکو میں بھی گائے جاتے ہیں۔
دلہن بنی ایک لڑکی گھونگھٹ نکال کر اور کمر کو پکڑ کر گول گول ہلاتے ہوئے اونچی آواز میں گاتی ہے۔
منی دئیا لالا
میرے پیڑ کلیجے
میرے نکے نکے بچڑے
کونڑ پلے سی؟
میری سوکن پلے سی؟
منی دئیا لالا
میرے پیڑ کلیجے
میرے سوہنڑے سوہنڑے کپڑے
کونڑ ہنڈیسی؟
میری سوکن ہنڈیسی؟

اس گیت میں ایک لڑکی دلہا کا روپ دھار لیتی ہے۔ باقی خواتین اس کی ہمنوا بن کر ہر بات میں ہاں جی ہاں جی کرتی ہیں۔
بچپن میں ہمارے گھر ہماری والدہ محترمہ کی ایک سہیلی اپنی دختر نیک اختر جن کا اسم گرامی فرمائش صاحبہ تھا، کے ہمراہ بغرض تعلیم ہماری مہمان بنیں۔
وہ اچھے زمانے تھے۔ لوگوں کے دل اور گھر کے برآمدے وسیع ہوتے تھے۔
دو چار مہمان ہر وقت ہی موجود رہتے تھے۔
ان دنوں گھروں میں دروازے بند رکھنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ شہر بھر میں ہر گھر کا دروازہ کھلا رہتا تھا۔ پردے کے لحاظ سے دروازوں پر بوری یا کانوں کی چک ڈال دی جاتی تھی۔
دن دیہاڑے دروازے کھلے رکھنے کے باوجود چوری چکاری شاذو نادر  ہی ہوتی تھی۔ مہمانوں کو خدا کی رحمت عنایت اور باعث برکت سمجھا جاتا تھا۔
جہاں چار آدمی مل کر کھاتے وہاں دس آدمی بٹھا کر دسترخواں بڑھا لیا جاتا۔
چارپائیاں ہر گھر میں فالتو رکھی جاتی تھیں۔ جہاں مہمان آئے، نئے کھیس لحاف اور خوش آمدید کڑھے ہوئے تکیے ترنت بچھا دیے گئے۔
سالن میں دو چار آلو مزید ڈالیے، تازہ دال ابال کر لہسن کے تڑخے سے بگھار لی۔ پرانے جہیز کے سنبھالے ہوئے برتن نکال کر دعوت شیراز پیش کر دی۔ یہی وضعداری ہر سفید پوش گھرانے کی ریت و رسم تھی۔

یہ دونوں خواتین بہاول نگر سے تشریف لائیں تو گھر میں ایک کمرہ بمع سٹور فورا ً ان ماں بیٹی کو الاٹ ہو گیا۔ برآمدے میں ان کے لیے نیا کچا باتھ روم بھی بن گیا۔ کھانا پینا بھی مل جل کر ہونے لگا۔ فرمائش صاحبہ کی دوسری بہنیں نمائش صاحبہ اور زیبائش صاحبہ اور بھائی  تصور صاحب بھی بہاولنگر سے کبھی کبھار ملنے آیا کرتے تھے۔ فرمائش صاحبہ گورنمنٹ نارمل اسکول بہاوپور میں ایس وی کا امتحان پاس کر رہی تھیں۔
سکول کے مینا بازار کے فینسی ڈریس شو میں انھوں نے اپنی بہنوں کے ہمراہ یہی گیت پیش کر کے میلہ لوٹ لیا تھا۔ ہم تو خیر بالکل بچے سے تھے اور اپنی فیملی کی خواتین کے ساتھ مزے سے مینا بازار چلے جایا کرتے تھے۔
ہفتہ بھر اس گیت کی گھر میں ہمارے سامنے ریہرسل ہوتی رہی لہذا ہمیں اب تک ازبر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

برسبیل تذکرہ فرمائش صاحبہ کو انکے کالج کی نمائش کے لیے ہم نے اپنے جمع کیے ہوئے سارے سکے، پرانی ٹکٹوں کے البم بھی کسی سے پوچھے بنا چوری چھپے ادھار دے ڈالے۔ ان میں نادر شاہ اور شاہ عالم کے چاندی کے کمیاب سکے بھی شامل تھے۔ ٹکٹوں میں بہاولپور کی وہ نایاب ٹکٹیں شامل تھیں جن پر پاکستان کا ٹھپہ لگا کر استعمال کیا گیا تھا۔ اس زمانے میں پاکستان کی اپنی کوئی ٹکٹیں چھاپنے کی مشین نہیں تھی۔
وہ ٹکٹیں اور سکے کبھی مکمل واپس نہ کیے گئے۔
رہے نام اللہ کا۔
شاہ عالم کی مہر والے چاندی کے سکے اور اس مدھر گیت کے بول اب تک کبھی کبھار کانوں میں کھنکھنا اٹھتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply