• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مزدوروں کا نائین الیون /خونِ خاک نشیناں تھا ,سو رزقِ خاک ہوا ( ناصر منصور )

مزدوروں کا نائین الیون /خونِ خاک نشیناں تھا ,سو رزقِ خاک ہوا ( ناصر منصور )

آج سے دس سال پہلے سانحہ بلدیہ میں معصوم جانیں جل کر راکھ ہو گئیں. المیہ یہ نہیں کہ انہیں انصاف نہیں ملا، بلکہ حادثہ یہ ہے کہ لواحقین چِلاتے رہے کہ قاتل فیکٹری مالک ہے لیکن ریاست ، عدالتیں اور ذرائع ابلاغ باور کرواتے رہے کہ قاتل وہ ہیں جن کی اب انہیں ضرورت نہیں رہی۔ اس سے بڑھ کر المیہ یہ بھی ہے کہ ہر شخص نے اس فیصلے  کو من وعن نا صرف قبول کیا بلکہ خوب پھیلایا اور اتنا پھیلایا کہ خود مقتولین کے لواحقین کے لیے اصل قاتلوں کا چہرہ دھندلا سا گیا۔

صنعتی سانحات کی تاریخ کے اس الم ناک سانحہ کو بھتہ خوری اور دہشت گردی کا شاخسانہ قرار دے کر مقتل بنے کارخانوں کے مالکان کو سند عطا کی گئی کہ وہ مزدوروں کی زندگیوں کو موت کے منہ میں دھکیلتے رہیں۔ 11 ستمبر کا المیہ فیکٹریوں میں مزدوروں کی حالت زار کا نوحہ ہے جسے معاشرے نے سننے سے ہی انکار کر دیا ہے اور فیصلہ صادر کر دیا ہے کہ آگ لگائی گئی، کہا گیا کہ جرائم سے لتھڑی ایک تنظیم کے کارکن بھتہ نہ ملنے پر بپھر گئے اور انہوں نے سابقہ مالکان کو سبق سکھا دیا.

لیکن شہداء کے ورثاء کا سچ کچھ اور ہی ہے، فیکٹری میں آگ لگنے کی وجوہات کچھ بھی ہو سکتی ہیں لیکن خود جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق ہلاکتیں دم گھٹنے سے ہوئیں جس کی  وجہ ایمرجنسی میں فیکٹری سے باہر نکلنے کے راستوں کا نہ ہونا، تمام بیرونی کھڑکیوں کا فولادی سلاخوں کی مدد سے بند کر دینا، ہر فلور پر فائر الارم کا نہ ہونا، فلور کے اندر ہی لکڑی کے مچان کا ہونا، آگ پکڑنے والے مواد کا تمام فلورز پر بکھرے ہونا اور فلور گیٹس پر الیکٹرانک تالوں کا لگے ہونا۔

مجھے حیرت تو ان اذہان پر بھی ہے جو ہمیشہ ریاستی بیانیے سے  شاکی رہتے ہیں اور نام نہاد جے آئی ٹی کی رپورٹس کو بے بنیاد تصور کرتے ہیں لیکن انہوں نے بلدیہ سانحہ سے متعلق جے آئی ٹی رپورٹ کو مبنی برحق ہونے کی سند بخشی۔ حالانکہ سانحہ کے چند روز بعد ہی ہم نے خود ایک سو سے زائد شہداء کے ورثاء اور زندہ بچ جانے والے مزدوروں سے حادثہ سے متعلق انٹرویو کیے اور معلومات جمع کی گئیں، جو واضح طور پر مالکان کو ذمہ دار قرار دے رہے تھے۔

یہ کیسی جے آئی ٹی اور کس طرح کی تحقیقات تھیں کہ سانحہ میں زندہ سلامت بچ جانے والے کسی بھی مزدور یا شہداء کے ورثاء سے نہ  تو کچھ پوچھا گیا اور نہ ان کا نقطہ نظر لیا گیا۔ مقتولین کے ورثاء جسے قاتل قرار دے رہے  ہیں، وہ آزاد گھوم رہا ہے، خود ساختہ کہانی گھڑ لی گئی ، مالکان جو قاتل تھے، مدعی بن گئے ، مالکان مظلوم و معصوم قرار پائے، لواحقین کی کسی نے نہیں سنی، جسے ذمہ دار قرار دیا وہ آج بھی پیا مَن بھاتے ہیں اور ہر حکومت کا اسپئیر وہیل( اضافی پہیہ )ہیں۔

ہمارے دوستوں نے اس سانحہ کی لندن سے کمپیوٹر اسمیولیشن کروائی جو بتاتی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں مزدوروں کی ہلاکتوں کی وجوہات میں آگ بجھانے کے ناکارہ آلات، مزدوروں کو ان آلات کے استعمال کرنے کی تربیت کا نہ ہونا، فائر بریگیڈ کا تاخیر سے پہنچنا، فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کے متاثرہ فیکٹری کے اندر تک پہنچنے کے راستے کا نہ ہونا اور ہر فلور پر فائر الارم کی غیر موجودگی شامل تھیں۔اسی میں بتایا گیا کہ آگ کو پوری فیکٹری کو اپنی لپیٹ میں لینے میں پینتالیس منٹ لگے ،یہ وہ وقت ہے جس دوران فیکٹری میں پھنسے تمام مزدوروں کو تین مرتبہ نکالا جاسکتا تھا اگر نکلنے کے راستے کھلے ہوتے۔

بس کہنا صرف یہ ہے کہ مزدوروں کے سفاکانہ قتل کے ساتھ ساتھ سچ بھی مقتول قرار پایا ہے۔ اہل دانش ، سیاسی کارکنوں ، تخلیق کاروں ، نظری کارکنوں نے جس سفاکی سے اس سانحہ کو نظرانداز کیا ہے اس کی مثال شاید ہی کہیں ہماری تاریخ میں ملے، وجوہات کا اب تک متلاشی ہوں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہاں جواد احمد، کرسٹوفر پٹز اور عمار عزیز وہ چند استثناء ہیں جنہوں نے مزدور شہداء کے لیے یادگار گیت تخلیق کئے یا صنعتی تاریخ کے بدترین المیہ اور انصاف کے لیے مزدوروں کی تاریخی جدوجہد کو دستاویزی فلم کی  صورت محفوظ کر لیا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply